|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2014

اسلام آباد: سول سوسائٹی کے اراکین نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف درج ایف آئی آر میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کے حوالے سے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر آج بروز جمعہ شام 5 بجے آبپارہ پولیس اسٹیشن پہنچنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سول سوسائٹی کے اراکین نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ مولانا عبد العزیز کے خلاف درج ایف آئی آر میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں اور اگر آج شام 5 بجے تک یہ دفعات شامل ہوگئیں تو وہ منتشر ہوجائیں گے، دوسری صورت میں اپنے احتجاج کے اگلے مرحلے کا فیصلہ کریں گے۔ یاد رہے کہ 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان کی دہشت گردی اور معصوم جانوں کی ہلاکتوں کے حوالے سے مولانا عبدالعزیز نے اپنے ایک متنازع بیان میں کہا تھا کہ وہ نہ تو اس واقعے کی مذمت کریں گے اور نہ انھیں ‘شہید’ کہیں گے۔ مولانا کے اس بیان کے بعد سول سوسائٹی کے اراکین نے ان کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا اور دو دن تک مظاہرین لال مسجد کے باہر جمع رہے جس کے دوران مولانا عبدالعزیز کی جانب سے انھیں مبینہ طور پر دھمکیاں بھی دی گئیں۔ نتیجتاً دونوں پارٹیوں (مولانا عبدالعزیز اور سول سوسائٹی اراکین) کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ احتجاج کے تیسرے روز یعنی 20 دسمبر کو سول سوسائٹی مظاہرین نے نیشل پریس کلب (این پی سی) کا رخ کیا اور وہاں مظاہرہ کیا، جبکہ 22 دسمبر کو مظاہرین آبپارہ پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئے۔ جس کے بعد آبپارہ تھانے کے ایس ایچ او خالد اعوان نے انھیں یقین دلایا کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے حوالے سے قانونی رائے معلوم کرنے کے بعد شہریوں کو تشدد کے لیے اکسانے اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی دفعات بھی ایف آئی آر میں درج کرلی جائیں گی۔ دوسری جانب سول سوسائٹی اراکین نے خبردار کیا تھا کہ اگر ایف آئی آر میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل نہ کی گئیں اور لال مسجد کے خطیب کو گرفتار نہ کیا گیا تو وہ 26 دسمبر کو آبپارہ پولیس اسٹیشن کے سامنے دوبارہ مظاہرہ کریں گے۔ ان مظاہروں کے آرگنائزر اورانسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن جبران ناصر نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے مظاہرین کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے دو دن مانگے تھے۔ ‘پولیس نے انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کو ایف آئی آر میں شامل کرنے اور مولانا عبد العزیز کو گرفتار کرنے کے لیے 24 دسمبر تک کا وقت لیا تھا، 25 دسمبر کو ہم نے خود مظاہرہ نہیں کیا اور عیسائی کمیونٹی کے ساتھ کرسمس کی خوشیاں منائیں’۔ جبران ناصر کے مطابق ‘اگر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات ایف آئی آر میں شامل نہ کی گئیں اور آج شام 5 بجے تک مولانا کو گرفتار نہ کیا گیا تو ہم اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے’۔ ان کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی اراکین کی جانب سے جن دفعات کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ ناقابلِ ضمانت ہیں، لہذا مولانا عبدالعزیز ضمانت قبل ازگرفتاری بھی نہیں کرا سکیں گے۔ اس حوالے سے جب ایس ایچ او آبپارہ تھانے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں لیگل برانچ سے قانونی رائے لی جارہی ہے جو اتنا آسان عمل نہیں ہے۔ ‘فائلز پہلے پولیس اسٹیشن سے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کے پاس جاتی ہے اور اپھر اسے ایس ایس پی آفس بھیجا جاتا ہے، جس کے بعد اسے لیگل برانچ تک پہنچایا جاتا ہے اور پھر اسی طریقے سے اس کی واپسی متعلقہ تھانے تک ہوتی ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر جمعے کی شام 5 بجے تک ایف آئی آر میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کے حوالے سے رائے ہمیں موصول ہوگئی تو ہم اسے قانون کے مطابق شامل کردیں گے، دوسری صورت میں ہم سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بتا ئیں گے کہ اس عمل میں کچھ وقت لگتا ہے’۔ ایک اور پولیس آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ طریقہ کار کے مطابق پولیس لیگل برانچ سے اُس وقت رائے لیتی ہے جب کچھ دفعات کی ایف آئی میں شمولیت کے حوالے سے کنفیوژن پائی جاتی ہو۔