اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواستوں کی لائیو کوریج سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس میں عدالت نے منیر اے ملک کی بیماری کے باعث جسٹس قاضی فائز کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
اپنے دلائل کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت سے کہا کہ جہاں آپ کو محسوس ہوکہ میں حد پار کررہا ہوں مجھے روکا جائے، اس پر جسٹس عمر عطا نے کہا کہ ججز کی ایک ذمہ داری صبر اور تحمل کرنا بھی ہے، اگر کچھ لوگ آپ کے خلاف ہیں تو آپ کے حامی بھی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ موجودہ کیس اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے اور آزادی اظہار رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی سے مکالمہ کیا کہ اپنی درخواستوں میں اٹھائے گئے نکات پر دلائل دیں،دائیں بائیں بیٹھے ججز اتنی تفصیلات سن کر فوکس نہیں کرپا رہے لہٰذا بہتر ہوگا کہ براہ راست اصل مدعے پر آئیں۔
جسٹس قاضی فائز نے دلائل دیتے ہوئے سوال کیا کہ عمران خان، عارف علوی اور وزرا ذاتی حیثیت میں گفتگو کرسکتے ہیں، میں بطور جج ذاتی حیثیت میں بھی گفتگو نہیں کرسکتا؟ عوام کو انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ زیادہ چالاک نا ہونے کی وجہ سے اپنا نقطہ سمجھا نہیں سکا، دو سال سے میرے خلاف حکومتی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کے جج اور اہلخانہ کے خلاف سرکاری چینل سے پروپیگنڈا کیا گیا، مسئلہ 10 لاکھ تنخواہ کا نہیں بلکہ ملک کے مستقبل کا ہے اور میں یہ جنگ اپنے ادارے کے لیے لڑ رہا ہوں۔
اپنے دلائل کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جذباتی ہوگئے اور عدالت سے سوال کیا کہ اگر میری جگہ آپ کی اہلیہ اور بچے ہوتے تو آپ لوگ کیا کرتے؟ کل کو کسی بھی جج کو پروپیگنڈا میں گھسیٹا جاسکتا ہے، اگر فاضل ججز کو کوئی بات گراں گزری ہوتو معذرت چاہتا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آج ملک میں میڈیا کی حالت دیکھ لیں، صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کرلیا جاتا ہے اور صحافیوں کے اغوا پر وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم کیا ہوا، صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی، ذمہ داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرادیا جاتا ہے، قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہوگی، ایک فوجی ڈکٹیٹر کی اقتدار کی ہوس نے ملک تباہ کردیا۔
جسٹس قاضی کے دلائل پر جسٹس عمر نے کہا کہ جج صاحب یہ قانون کی عدالت ہے، ہم نے مقدمات کے فیصلے کرنے ہیں، آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اسے عدالت سے باہر رکھیں، بہتر ہوگا کہ ہم اپنی حدود سے باہر نا نکلیں۔
جسٹس منظور ملک نے کہا کہ قاضی صاحب جذباتی نا ہوں، کیس پر فوکس کریں، اس پر جسٹس قاضی نے کہا کہ میری ذات کو بھول جائیں، ملک کے لیے جذباتی ہورہا ہوں، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے جسٹس قاضی کے دلائل کے دوران ہی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔