آج پوری دنیا میں پانی کا عالمی دن اسی سوچ کے تحت منایا جارہا ہے کہ حکومتوں کی توجہ پانی کی عدم دستیابی اور لوگوں میں پانی کے ضیاع کی روک تھام کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔کرہ ارض میں پانی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی بنیاد پر چین بھارت اور مشرقی وسطیٰ سمیت دیگر ممالک کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پانی کو اقوام عالم کے مابین فائدہ اٹھانے اور یہاں تک کہ “دہشت گردی کے مقاصد کو مزید آگے بڑھانے کے لئے ایک ہتھیار” کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
این آئی سی نے بھی خبردار کیا ہے کہ پاکستان سمیت مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے ممالک 2035 تک “معاشی، معاشرتی اور سیاسی تناؤ میں اضافہ” کے ذریعہ پانی کے انتہائی دباؤ کا سامنا کریں گے۔موسمیاتی تبدیلی دنیا کے پانی اور موسم کے نمونوں میں ردوبدل کرکے غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھاوا دے رہی ہے، جس سے دنیا کے کچھ حصوں میں خشک سالی اور پانی کی قلت ہے لیکن دوسروں میں سیلاب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قیام پاکستان کے وقت ہرشہری کیلئے پانچ ہزار سے زیادہ کیوبک میٹرپانی دستیاب تھا جو اب کم ہو کر صرف ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ 2025 تک صرف آٹھ سو کیوبک میٹر پانی رہ جائے گا جب کہ اسی عرصے میں دنیا کی دو تہائی آبادی پانی کی تکلیف دہ قلت سے دوچار ہو گئی۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی معاشی ترقی اور آبادی کا بلاواسطہ طور پر اسی شعبے پر انحصار ہے۔زراعت کے شعبے کا دارومدار پانی کی دستیابی پرہوتا ہے۔ملک میں آبادی کے شرح نمو کے تناسب سے پانی کی فی کس میسر مقدارمیں بتدریج کمی واقع ہونے اور زراعت کے لیے پانی کی عدم دستیابی سے بڑی آبادی کو غذائی قلت جیسی صورتحال کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔زراعت اور پینے کے لئے زیر زمین پانی کی سطح بے تحاشا استعمال سے انتہائی تیزی سے کمی کا شکارہو رہی ہے۔
ایک انداز یکے مطابق پاکستان زیرزمین پانی استعمال کرنے والے ممالک میں بڑا ملک خیال کیا جاتا ہے۔ ہر سال زیرزمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے ماہرین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں اور ہمارے رویوں کے باعث ملک میں قلت آب کا مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کر سکتا ہے۔بلوچستان میں پانی کی قلت ہمیشہ سے رہی ہے جغرافیائی تعلق،کم اوسط بارشیں، ماحولیاتی کردار،علاقائی موسمیاتی عمل، گلوبل وارمنگ، کلائمیٹ چینج اور اس کے اثرات جو خشک سالی، سیلاب اور سطح سمندر میں اضافہ،قدرتی آفات،پانی کی غیر معیاری مینجمنٹ،زیر زمین پانی کی بے تحاشا پمپنگ۔
قوانین پر عمل درآمد میں کمزوری، آبادی میں اضافہ اور عوام میں شعور و آگاہی کا فقدان ایسے اسباب ہیں جو کہ صوبے میں پانی کی قلت کا باعث بن رہے ہیں۔بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے خشک اور بنجر تصور کیا جاتا ہے جہاں زیر زمین پانی صرف 0.9فیصد ہے جس کا 0.6 فیصد استعمال میں ہے جس کی وجہ سے پانی کی دستیابی دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے دوسرے صوبوں کی نسبت یہاں بارشوں کا تناسب انتہائی کم ہے پانی کی عدم دستیابی اور قلت کی وجہ سے صوبے کے زیادہ تر علاقے بے آباد اور بنجر ہیں۔نہری نظام سے منسلک نہ ہونے سے صوبے میں آبادی۔
زراعت اور لائیو اسٹاک کا انحصار بارشوں اور زیر زمین پانی پر ہے ان کے لئے پانی کی دستیابی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ 2025 تک، بلوچستان کی دو تہائی آبادی کو پانی تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ پہلے ہی کئی دہائیوں کے دوران ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس صوبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔جس سے زیر زمین پانی کی سطح میں دو ہزار فٹ تک جانے سے بیشتر اضلاع میں زراعت کاشعبہ تباہ ہوچکاہے۔ کوئٹہ اور گوادر کے باسی پینے کے پانی کے لئے پریشان ہیں۔ کوئٹہ میں آبادی کو روزانہ 5 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہے۔
جبکہ صرف 3 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جا رہا ہے اس طرح آبادی کو2کروڑ گیلن پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ 2030تک کوئٹہ شہر کی پینے کے پانی کی طلب بڑھ کر 6کروڈ گیلن روزانہ ہوگی جوکہ 2050میں 9کروڑ 40لاکھ گیلن روزانہ ہوسکتی ہے۔ کایزات کا نظام آبپاشی کا ایک دیسی طریقہ تھا جس میں زیر زمین پانی سرنگوں اور زیرزمین پانی کے چینلز کا استعمال کرتے ہوئے ٹیپ کیا جاتا ہے – کچھ جگہوں کو چھوڑ کر تقریبا ختم ہو چکے ہیں۔ جس پانی کو پینے کے لئے استعمال کرنا تھا اسے زراعت،باغبانی اور دیگر استعمال میں لا کر ختم کرنے کے قریب لایا گیا ہے۔
اس اہم مسئلہ کے تدارک کے سلسلے میں پانی کی قلت کودورکرنے، آبادی کو پانی کی دستیابی اور زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ کے لئے صوبے میں وفاقی اور صوبائی حکومت اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں صوبے بھر میں 100چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ بارش کے بعد بہتے ہوئے پانی کو بچانے کے لئے چھوٹے ڈیم زیرزمین پانی کی میز کو اٹھانے اور خشک سالی سے نمٹنے کے لئے ایک سستا ترین حل ہے۔صوبے میں سالانہ بارش اوسط 6سے 7انچ ہوتی ہے اور نہری نظام نہ ہونے کی وجہ سے آبادی کا زیادہ تر انحصار زیرزمین پانی کے وسائل پر ہے۔
اس منصوبے کا مقصد صوبے میں خشک سالی اور قلت آب کا خاتمہ زراعت کے فروغ،سیلابی پانی کو محفوظ بنانے، باغات اور کھیتوں میں پانی کا موثر استعمال، زرعی اراضی میں اضافہ،غذائی بحران پر قابو پانے اور زیر زمین پانی کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ مقصود ہے۔صوبائی حکومت کوئٹہ کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی ضرورت کے مطابق مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر پانی کی فراہمی کے لئے طویل مدتی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ان میں مانگی ڈیم،برج عزیز اور دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر اور پانی کی سپلائی کے نظام پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔
منگی ڈیم کی تعمیر پر کام تیزی سے جاری ہے جوکہ دو سال کے عرصہ میں مکمل ہوجائے گا۔جس سے شہر کو روزانہ 8کروڑ گیلن پانی ملنے کا امکان ہے اسی طرح برج عزیز اور دیگر ڈیموں کی تعمیر سے کوئٹہ کے شہریوں کو روزانہ 107 ملین گیلن پانی فراہم ہوگا۔اس سلسلے میں بابر کچھ ڈیم سبی ٹاؤن سے 35 کلومیٹر شمال میں دریائے ناڑی پر تعمیر کیا جائے گا۔ بابر کچھ ڈیم کی فزیبلٹی اسٹیڈی اور ڈیزائن سے متعلق ڈرافٹ فزیبلٹی رپورٹ اور پی سی ون فروری 2021 میں جمع کرا دیا گیا ہے جبکہ تفصیلی ڈیزائن رپورٹ رواں سال مئی میں جمع کرائی جائے گی۔
اس ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف آس پاس کے دیہاتوں اور کوئٹہ کو پینے کے پانی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے گا بلکہ ڈیم میں فلڈ واٹر ذخیرہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس منصوبے سے 50 کیوسک پانی دستیاب ہوگا۔ جبکہ برج عزیز ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ کیمطابق کوئٹہ سے 58 کلومیٹر شمال مغرب میں پشین لورا پر ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے جس سے کوئٹہ کے شہریوں کی پانی کی ضرورت پوری کی جا سکے گی بلوچستان میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے۔ بلوچستان ڈیمز کی تعمیر کے لیے آئیڈیل صوبہ ہے۔ کیچمنٹ ایریا بہت بڑا ہے۔
ان ڈیموں کے منصوبوں سے جہاں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے،زیرزمین پانی کی سطح میں اضافہ ہونے،زراعت کے شعبے کو فروغ،خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے اور معاشی ترقی کے اہداف حاصل کیا جاسکتاہے۔صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے زراعت سے شعبے سے ساتھ ساتھ لوگوں کے پینے کے لیے پانی کی دستیابی ممکن ہوگی۔ موجودہ صوبائی حکومت شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی،زیرزمین سطح اب میں اضافہ،زرعی ضرورت کو پورا کرنے،معاشی آسودگی اور لاکھوں ایکٹرز بنجر زمین کو کاشت کاری کے قابل بنانے کو یقینی بنانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔
لہذا حکومت پانی کے مسئلہ کے حل کے لیے ڈیمز کی تعمیرات پر بھرپور توجہ دے رہی ہے۔جبکہ عوام کو پانی کے معاملے میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ان خطرات کو معمولی نہ سمجھا جائے اگر خدانخواستہ خشک سالی کا عرصہ یونہی بڑھتا گیا۔بلوچستان میں زراعت چرند پرند اور انسانوں کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ پانی کے مطلوبہ ضرورت کے مطابق نہ ہو نے سے ترقی کا عمل بھی رک سکتا ہے۔