اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام میں ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کیلئے میں نے پاک فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں،عوام میں نہ خوف ہے اور نہ احتیاط کررہے ہیں ، وباء کا پھیلائو تیزی سے بڑھ رہا ہے ،اگر ویکسین آ بھی جائے تو اس کا اثر ہونے میں ایک سال کا عرصہ لگے گا، ہم آج سے ٹیکے لگانے شروع کریں۔
تو کیسز کے نیچے آنے میں وقت لگے گا ، سب سے زیادہ فرق ایس او پیز سے پڑیگا، جب تک قوم وباء کا مقابلہ نہیں کریگی ہم اس سے نہیں جیت سکتے ،ہم نے احتیاط نہیں کی تو زیادہ سے زیادہ ہفتے، 2 ہفتوں میں ہمارے بھی بھارت جیسے حالات ہوجائیں گے،عوام ایس اوپیز پر عمل کریں تو شہرو ں کا لاک ڈائون ہیں کرنا پڑے گا ۔ جمعہ کو قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزرا کے ہمراہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم عوام کو ایس او پیز پر عمل کرنے کی ہدایت کررہے ہیں تاہم ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام میں نہ خوف ہے اور نہ احتیاط کررہے ہیں اس لیے وبا کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ویکسین کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ویکسین کے حصول کی پوری کوشش کررہے ہیں، پہلے بین الاقوامی سطح پر بھارت سے ویکسین دیے جانے کا فیصلہ ہوا تھا۔
جہاں دنیا کے دوسرے نمبر پر ویکسینز بنتی ہیں تاہم انہوں نے 2، 3 ممالک کو دی اور اب اتنے برے حالات ہیں کہ وہ اب کسی کو نہیں دے رہے۔وزیراعظم نے بتایا کہ ہم نے چین سے ویکسین مانگی ہے لیکن وہاں بھی طلب بہت زیادہ ہے باقی دنیا میں ہر جگہ ویکسین کی کمی ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر ویکسین آ بھی جائے تو اس کا اثر ہونے میں ایک سال کا عرصہ لگے گا۔
اگر ہم آج سے ٹیکے لگانے شروع کریں تو کیسز کے نیچے آنے میں وقت لگے گا لیکن سب سے زیادہ فرق ایس او پیز سے پڑے گا۔ انہوںنے کہاکہ جب تک قوم مل کر اس وبا کا مقابلہ نہیں کرے گی ہم اس سے نہیں جیت سکتے، گزشتہ برس جس طرح لوگوں نے ایس او پیز پر عمل کیا اس میں اور آج کے وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ لہر کے دوران شاید ہی کوئی ایس او پیز پر عمل کررہا ہے۔
لہٰذا اب ہم سختی کریں گے اور اْمید ہے کہ عوام ایس او پیز پر عمل کریں گے تو سب سے خوفناک چیز یعنی شہروں کا لاک ڈاؤن نہیں کرنا پڑے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کے حالات دیکھیں کہ وہاں کس طرح آکسیجن کی کمی ہے، ہسپتال بھرے ہوئے ہیں کئی مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں کورونا وائرس کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میری اپیل ہے کہ اگر ہم نے احتیاط نہیں کی تو زیادہ سے زیادہ ہفتے، 2 ہفتوں میں ہمارے بھی بھارت جیسے حالات ہوجائیں گے۔
وزیر اعظم نے کہاکہ اس وقت ہمارے ہسپتالوں میں بھارت والے حالات اس لیے نہیں ہوئے کہ کیوں کہ ہم نے گزشتہ برس ہسپتالوں کی گنجائش میں اضافہ کردیا تھا، اگر گزشتہ سال والی گنجائش ہوتی تو آج پاکستان میں بھی بھارت والے حالات ہوتے۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں جس طرح کورونا وائرس کے کسیز میں جس طرح تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
اس کو دیکھتے ہوئے میری اپیل ہے کہ ایس او پیز پر عمل کریں، ہم بار بار ایس او پیز کا کہتے ہیں پر لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے لیکن صرف ماسک لگانے سے ہمارا 50 فیصد مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔انہوںنے کہاکہ آج سے عید تک عوام ایس او پیز پر عمل کرلیں تو شاید ہمیں وہ اقدامات نہیں اٹھانے پڑیں گے جو بھارت کو کرنا پڑا یعنی شہروں کا لاک ڈاؤن کرنا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کا تجربہ ہے کہ لاک ڈاؤن میں سب سے کمزور اور غریب طبقہ پس جاتا ہے مجھے لوگ آج بھی کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کردو تاہم ہم دیہاڑی دار طبقے کے لیے اس فیصلے سے رکے ہوئے ہیں لیکن کب تک رکے رہیں گے یہ آپ پر منحصر ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری مساجد میں ایس او پیز پر عمل ہوا اور ہماری مساجد سے کورونا نہیں پھیلا ۔
بعد ازاں وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں شہروں کا لاک ڈاؤن کا خدشہ نظر آرہا ہے اس لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کو ہدایات دی گئی ہیں کہ آئندہ چند روز میں صوبوں کے ساتھ مل کر منصوبہ تشکیل دیا جائے اور لوگوں کو مشکلات سے بچانے کے لیے جو اقدامات کرنے چاہیے وہ تجویز کیے جائیں۔اسد عمر نے این سی او سی میں کیے گئے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جن شہروں میں مثبت کیسز کی شرح زیادہ ہے۔
وہاں نویں سے بارہویں جماعت کے لیے بھی اسکولز عید تک بند رہیں گے، بازاروں کے اوقات کار شام 6 بجے تک ہی رہیں گے اس کے بعد صرف انتہائی ضروری اشیا کے کاروبار کی اجازت ہوگی جس کی فہرست جاری کی جائے گی، انِ ڈور ڈائننگ پر پہلے سے پابندی عائد تھی اب عید تک آؤٹ ڈور ڈائننگ بھی بند کردی گئی البتہ کھانا خرید کر لے جانے یا گھر منگوانے کی اجازت ہوگی۔
انڈور جمز پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے،دفتری اوقات کو 2 بجے تک محدود کیا جارہا ہے کیوں کہ 6 بجے تک بازار کھلے ہونے کے باعث لوگوں کو خریداری کا وقت مل سکے جس میں عید کی خریداری بھی شامل ہے، ساتھ ہی انہوں نے درخواست کی کہ خریداری کے لیے آخری دنوں کا انتظار نہیں کریں،دفتر میں 50 فیصد ملازمین کے گھروں سے کام کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد پر زور دیا گیا ہے۔
دنیا میں وائرس کی مختلف اقسام کے پھیلاؤ کے پیش نظر بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کی تعداد میں کمی لانے کی پالیسی بنانے کی ہدایت کردی گئی ہے، بیرونِ ملک سے آنے والے افراد کی ٹیسٹنگ، قرنطینہ کے نظام کو مربوط کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے تاکہ باہر سے وبا آنے کا خطرہ نہ ہو، آکسیجن کی فراہمی کو جلد از جلد مزید بہتر بنانے اور ضرورت پڑنے پر درآمد کرنے کے حوالے سے بھی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ اسد عمر نے بتایا کہ اس وقت ملک میں آکسیجن کی پوری پیداواری صلاحیت 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے جس میں 75 سے 80 فیصد آکسیجن صحت کے لیے استعمال ہورہی ہے جس میں کورونا وائرس کے تشویشناک مریضوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔اس کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ وبا کی پہلی لہر کے دوران نظام صحت پر شدید دباؤ پڑا اور انتہائی نگہداشت یونٹس میں زیر علاج تشویشناک مریضوں کی تعداد ساڑھے 3 ہزار تک چلی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں انتہائی نگہداشت یونٹس میں داخل تشویشناک مریضوں کی تعداد 4 ہزار 600 سے زائد ہے اس لیے ہم پچھلی لہر سے بہت اوپر جاچکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کیسز مثبت آنے کی شرح بھی مسلسل 10 فیصد یا اس سے اوپر ہے جس سے لگتا ہے ہمارے معاشرے میں وبا کا شدید پھیلاؤ موجود ہے اور کچھ شہروں میں مثبت شرح 20 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔
معاون خصوصی نے کہا کہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ وہ شہر جہاں مثبت شرح کم تھی اب وہاں بھی بڑھ رہی ہے اور اس کے باعث نظامِ صحت پر دباؤ ہے اور خدشہ ہے کہ یہ ایک سطح سے اوپر نہ چلا جائے۔انہوں نے کہا کہ اس صورتحال نے ہمیں مجبور کیا کہ مزید سختیوں کا اعلان کیا جائے۔دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بتایا کہ کورونا کی انتہائی تیزی سے بگڑتی صورتحال۔
کے پیش نظر وزیراعظم نے شہروں میں فوج طلب کر لی ہے تاکہ ایس او پیز پر مکمل عملدرآمد کرایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ عمومی معمولات متاثر ہوں گے، ہم آکسیجن کے استعمال کی 90 فیصد صلاحیت پر پہنچ گئے ہیں، لاہور کورونا سے بدترین متاثر ہے احتیاط کریں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔