احتجاج ہر شخص کا بنیادی حق ہے اگر کسی کے خلاف زیادتی ہوتی ہے تو وہ اور اس کے حمایتی احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔ بعض معاملات میں ریاست اور ریاستی ادارے احتجاج کرنے والوں کے خلاف انتہائی سخت اور نا قابل برداشت رویہ اپناتے ہیں ۔ یہ بات اس وقت بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے جب ریاست اور ریاستی ادارے زیادتی اور غیر قانونی اور غیر انسانی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں ۔ جوابی کارروائی انتہائی سخت اور نا قابل برداشت ہوتی ہے جس سے ان اداروں کے حقیقی خدو خال نمایاں ہوجاتے ہیں ۔ بلوچستان جیسے پسماندہ نظر انداز صوبے میں اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ۔ اور آئے دن ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں ۔ مگر احتجاج کا دوسرا پہلو بھی ہے ۔ ایک تو مفاد پرست اور مخصوص مفادات کے لوگ احتجاج کرتے ہیں ان کا مقصد ذاتی یا گروہی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے ۔ چونکہ وہ اپنے ناجائز مفادات کا تحفظ کررہے ہوتے ہیں اسلئے وہ بلیک میلنگ کی حد تک گر جاتے ہیں اور اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کر وہ پورے سماج ‘ شہر یا کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ اس کی مثال روزانہ کوئٹہ میں لوگوں کے مشاہدے میں آتی ہے ۔ سرکاری ملازمین ‘ بشمول اساتذہ یا کسی سرکاری ادارے کے ملازمین کو اجتماعی سودا کاری کا حق حاصل نہیں ہے ۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اور صرف ذاتی حقوق کی نگرانی کر سکتے ہیں اس کا بھی تعلق پوری ریاستی مشینری یا ریاست یا صوبائی حکومت سے نہیں ہوتا ۔ اس کا تعلق اس سے بالا متعلقہ افسرسے ہوتا ہے ۔ اگر وہاں شنوائی نہ ہو تو محکمہ کے سربراہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔ چونکہ بلوچستان میں ہر طرف مافیا کا راج ہے یہاں تک کہ سیاست میں بھی مافیا موجود ہے ۔ اسلئے مفاد پرست پہلے ہی وار میں حکومت کو نشانہ بناتے ہیں اور اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں حکومت اور اعلیٰ ترین حکمرانوں کو ’’ اسٹریٹ پاور ‘‘ استعمال کرکے بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ عام طورپر حکمران اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ وہ غیر قانونی ہتھکنڈوں کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں اوران کے ناجائز مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہیں جب یہ مفادت پرست سڑکوں پر آتے ہیں تو وہ سڑکیں بند کردیتے ہیں اور عوام الناس کو تکلیف پہنچاتے ہیں اس کی سزا مریض ‘ اسکول کے بچے ‘ بوڑھے ‘ خواتین ‘ ڈیوٹی پر جانے ولے لوگوں کو ملتا ہے اور وہ سب متاثر ہوتے ہیں ۔ سڑک بند کرنا یا آمد و رفت میں رکاوٹ ڈالنا قانوناً جرم ہے ۔ مگر پولیس اور مقامی انتظامیہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی ۔ یہاں تک کہ ان کو وارننگ تک نہیں دی جاتی ۔ پوری دنیا میں احتجاج کرنے والوں کو صاف صاف بتا دیا جاتا ہے کہ وہ سڑکیں بند نہیں کریں گے اور آمد و رفت میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈالیں گے۔
اس لئے پوری دنیا میں احتجاج ریکارڈ کروائے جاتے ہیں ۔ ایسے شریفانہ احتجاج کی وقعت بھی ہوتی ہے اس احتجاج کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں احتجاج کرنے والے اپنا حق سمجھتے ہیں کہ کسی مشکوک آدمی کو پکڑ کر زندہ جلا دیں ۔گاڑیوں پر حملے کریں خواتین کو ہراساں کریں۔ سرکاری املاک ‘ ٹریفک سنگنلز کو توڑنا اور اس کو تباہ کرنا بھی احتجاج میں شامل ہے ۔ گزشتہ سالوں کوئٹہ میں واسا کے چند ایک ملازمین نے شاہراہ پر قبضہ کر لیا اورسڑک پر لیٹ گئے ان کا احتجاج اپنے اس مطالبے کی بنیاد پر تھا کہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔ ان احتجاج کرنے والوں کی تعداد صرف سات تھی ۔ یہ صاحبان سڑک پر لیٹ گئے ۔ انہوں نے کوئٹہ کی سب سے بڑی اور معروف شاہراہ زرغون روڈ ریلوے ہیڈ کوارٹرز کے قریب بند کردی ۔ اس سے لاکھوں لوگ پریشان ہوئے یہ سڑک ا ن سات افراد نے جو واسا کے ملازم تھے چار گھنٹوں تک بند رکھی ۔ کروڑوں گیلن پٹرول ضائع ہوا لاکھوں گھنٹے کام کے ضائع ہوئے ۔ لاکھوں افراد جن میں مریض ‘ بوڑھے اور بزرگ شہری ‘ خواتین ‘ اسکول کے بچے اور ملازم پیشہ لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہوئے انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی ۔ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی یہاں تک احتجاج کرنے والوں کو یہ تک نہیں کہا گیا کہ وہ سڑک کھول دیں ۔ اسی اثناء میں ایک صوبائی وزیر بھی ’’ ٹریفک جام ‘‘ میں پھنس گئے تھے انہوں نے مطالبات پر غور کرنے کا وعدہ کیا اور اس طرح ان سات افراد نے لاکھوں افراد کو مصیبت سے رہائی دلائی ۔ اس طرح کا احتجاج بلیک میلنگ ہے عوام دشمنی ہے ۔ انتظامیہ کو چائیے کہ وہ کسی کو یہ اجازت نہ دے کہ وہ سڑکوں پر آمد و رفت کو بند کرے اگر ایسا کبھی مستقبل میں ہوا تو یہ پولیس اور انتظامیہ کی نا اہلی ہوگی ۔
احتجاج سے عوام دشمنی تک
وقتِ اشاعت : March 21 – 2015