چیئرمین جاموٹ اسٹوڈنٹس کونسل بلوچستان بلاول پیچوہو جاموٹ نے اپنے بیان میں کیا کہ بلوچستان میں اکثر دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بیشر علاقے ایسے ہیں جہاں سکول و کالجز سرے سے ہیں ہی نہیں۔
بہت کم ایسےاضلاع ہیں جہاں سیکنڈری سکول اور کالجز کی تعمیر پر توجہ دی گئی ہے۔ نتیجتا پرائمری سکول سے فراغت کے بعد بچوں کی تعلیم کا آگے کوئی مستقل نظام نہیں ہوتا ہے۔ پرائمری سکولز میں ایسے سیکڑوں سکول شمار کیے جاسکتے ہیں جو اساتذہ کی عدم توجہی، قابلیت کی کمی اور مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔
جہاں سندھی اور پنجابی وڈیروں پر یہ سوالیہ نشان داغ دیا جاتا ہے کہ وڈیرے لوگوں کو تعلیم فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں دکھاتے اور انہیں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں، یا صوبائی حکومت اس معاملے میں کوئی حکت عملی تیار نہیں کرتی، وہیں صوبہ بلوچستان بھی انہیں محرومیوں کی وجہ سے اپنی نوجوان نسل کو تعلیم فراہم کرنے میں تاحال بری طرح ناکام ہے۔
کئی سکول ایسے ہیں جو محض ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ اس معاملے میں اساتذہ کا تناسب قابل غور ہے۔ بلوچستان میں 10 ہزار کے قریب اساتذہ گھوسٹ ہیں جبکہ پورے بلوچستان میں اساتذہ کا شدید فقدان ہے۔ کئی مڈل سکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور کئی میں صرف ایک استاد تعلیمی عمل کو یقینی بنانے میں سرگرداں ہیں۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری دیکھ کر والدین بچپن ہی سے اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے کاموں میں لگا کر ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اس سے شرحِ ناخواندگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ستائیس لاکھ میں سے انیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔ بلوچستان کے 36 فیصد سکولز میں پانی کا، 56 فیصد میں بجلی کا مسئلہ ہے اور 15 فیصد سکول بالکل بند پڑے ہیں۔
دوسری طرف جن طلبہ کو تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے، انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ رہائش گاہ کے مسئلے سے لے کر لائیبریریز یا پھر داخلوں میں میرٹ کے قتل تک کے جیسے امور انہیں علمی دنیا سے دور کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ مجبورا نوجوان نسل تعلیمی اداروں میں کم اور احتجاجی دھرنوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔