|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2015

عرب لیگ کی سربراہ کانفرنس نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ عرب ممالک کی ایک مشترکہ فوج بنائی جائے گی جو تقریباً 40ہزار فوجیوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ فیصلہ یمن میں خانہ جنگی دوسرے الفاظ میں اقتدار پر حوثی شیعہ باغیوں کے قبضے کے بعد کیا گیا۔ حوثی باغیوں کو ایران کی مالی، سیاسی، اخلاقی اور فوجی امداد حاصل ہے۔ عرب ممالک کی جانب سے شدید ردعمل کی وجہ یہ ہے کہ ایران کا ایک پراکسی یمن پر حکمرانی کرے گا اور یمن کے ذریعے پورے خطے میں جہاز رانی اور بین الاقوامی تجارت پر کنٹرول حاصل کرے گا۔ اگر یمن پر حوثی باغیوں کا قبضہ مکمل ہوگیا تو آبنائے باب المندب پر بھی ایران کی حکمرانی بذریعہ حوثی باغی مکمل ہوگی۔ آبنائے ہرمز جو مکران کے ساحل پر واقع ہے پہلے ہی ایران کا حصہ ہے جو برطانوی استعمار نے بلوچستان کے حصہ بخرے کرنے کے بعد ایران میں موجود بلوچ علاقے ایک معاہدے کے تحت حوالے کئے۔ آبنائے ہرمز یا مکران کے ساحل سے دنیا کا 40فیصد تیل گزرتا ہے جو بین الاقوامی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ آبنائے ہرمز کے بعد آبنائے باب المندب پر ایرانی قبضہ عرب ممالک کے لیے نہ صر ف ناقابل قبول ہے بلکہ ان کی معاشی موت کے مترادف ہے۔ اس لئے عرب ممالک کا سعودی عرب کی سربراہی میں ردعمل انتہائی شدید رہا اور گھنٹوں میں عرب ممالک متحد ہوگئے اور اتحاد بن گیا اور عرب اتحادی ممالک کے 200سے زائد طیاروں نے یمن پر اور حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے شروع کئے اور میزائل کے اڈوں، فوجی اڈوں، رسل و رسائل کے ذرائع اور ان کے فوجی کمانڈ اور کنٹرول کو نشانہ بنایا گیا۔ اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ حوثی باغیوں کی نقل و حرکت محدود ہو اور ان کو یہ اہلیت حاصل نہ رہے کہ وہ اپنی افواج کو سعودی عرب کے سرحدوں کے قریب لے جائیں۔ ابھی تک عرب اتحادیوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ حوثی باغیوں کے خلاف زمینی افواج استعمال کی جائیں تاہم عرب سربراہ کانفرنس نے یہ اصولی فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کی ایک مشترکہ فوج ہونی چاہئے جو اس قسم کے بحران میں کام آئے۔ یہ فوج ممکنہ طور پر افریقی یونین کے فوج کے طرز پر ہوگی اور جہاں کہیں عرب مفادات خاص طور پر عرب ممالک کی سیکورٹی کو خطرات لاحق ہوں اس فوج کو استعمال کیا جائے۔ اگر یہ فوج موجود ہوتی تو عرب ممالک اس کو لیبیا، شام، عراق، سوڈان اور دوسرے ممالک میں استعمال میں لاتے جہاں پر ان ممالک کو دہشت گردی اور مملکت کے خلاف بغاوت کا سامنا ہے۔ اگر یہ فوج بن جاتی ہے تو اس کو یمن اور لیبیا میں فوری طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی عرب ممالک کے لئے ایران ایک مستقل مسئلہ رہے گا اور یہ اس وقت رہ سکتا ہے جب تک ایرانی حکام اپنی شیعہ نظریات کو برآمد کرتے رہیں گے اور ان تمام ممالک میں شیعہ تحریکوں کی مالی، سیاسی اور فوجی مدد کرتے رہیں گے۔ اس لئے یہ مسئلہ ایک بڑا بحران بن سکتا ہے۔ ایران کے اندر خود ایرانی دانشور یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ایران کی ایک بہت بڑی دولت اور وسائل ایرانی حکومت بیرونی، خصوصاً پڑوسی ممالک میں شیعہ انقلاب کو برآمد کرنے کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے پاکستان میں کبھی بھی شیعہ اور سنی اختلافات کو اہمیت نہیں ملی جب تک ایران نے شیعہ گروہوں اور علماء کی امداد شروع نہیں کی۔ بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں بلوچ ہزاروں سال سے سیکولر طرز زندگی گزار رہے تھے وہاں بھی بیرونی مداخلت کی گئی۔ سنی کے لیے سعودی عرب اور شیعہ حضرات کے ایران سے مالی، سیاسی بلکہ کسی حد تک فوجی امدادآئی اور بلوچستان میں بھی فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ ان تمام مداخلت کے شواہد عام آدمی کو نظر آتے ہیں کہ غریب فرقہ پرست راتوں رات اربوں روپے کے مالک بن گئے اور ہر ایک گروہ نے اپنی فرقہ وارانہ مفادات کے تحفظ کے لیے ملیشیاء بھی بنالیا۔ چونکہ پاکستان میں مسلح افواج انتہائی طاقتور ہیں اس لئے یہ فرقہ پرست پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ ثابت نہیں ہوسکتے۔