افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند کے اہم شہر لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ طالبان جنگجوؤں اور افغان فرسز کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں لشکرگاہ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں لاشوں کے ڈھیرلگ گئے۔
خونریز لڑائی کے بعد لشکرگاہ کی سڑکوں پر لاشیں بکھری پڑی ہیں، تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا وہ عام شہریوں کی ہیں یا طالبان کی۔
لشکر گاہ میں گزشتہ ایک ہفتے سے جاری لڑائی کے نتیجے میں ہزاروں افراد محفوظ مقامات کی جانب نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی اور دیگر بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان ملک کے مخلتف حصوں میں لڑائی میں شدت آئی ہے۔
اس وقت طالبان افغان صوبے ہلمند، قندھار اور ہرات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور جنگجوؤں کی جانب سے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ تجزہ کاروں کا خیال ہے کہ لشکر گاہ پر قبضہ طالبان کے لیے ایک بہت بڑی علامتی کامیابی ہوگی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق جنوبی ہلمند صوبے کے شہر لشکر گاہ میں امریکی اور افغان ایئرفورس کے طالبان کے خلاف لگاتار حملے جاری ہیں۔ مگر اس کے باوجود طالبان افغان فورسز پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اگر لشکر گاہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ سنہ 2016 کے بعد طالبان کے کنٹرول میں آنے والا پہلا صوبائی دارالخلافہ ہو گا۔
اس کے علاوہ افغانستان کے مغربی شہر ہرات اور جنوب میں صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں شدید لڑائی کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان بڑے شہروں کے مختلف حصوں پر قابض ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب افغان سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ کچھ جگہوں پر قبضے کے بعد کل سے طالبان جنگجوؤں کو ان شہروں سے واپس پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں 20 سال سے جاری امریکی جنگ کے بعد جیسے جیسے امریکی و اتحادی افواج کے مکمل انخلا کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے تو ایسے میں طالبان تیزی سے سینکڑوں اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
مغربی شہر ہرات میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شہر کے اندر لڑائی جاری ہے لیکن اُن کے مطابق گذشتہ رات سے طالبان کے کئی ٹھکانوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی ہے اور اُن کی شہر میں داخلے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق ہرات شہر کے مغربی حصے شیوان، دستگر، پشتون پل اور ایئرپورٹ کے راستوں کو طالبان سے چھڑوا لیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شہر کے داخلی راستوں پر لڑائی تاحال جاری ہے۔
ہرات کے گورنر عبدالصبور قانع نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں دعویٰ کیا کہ شہر کی حفاظت کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ عوامی لشکر بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔
’ہم ہرات کے باسیوں کو آپ کے توسط سے یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز جنگ کے میدان میں ہیں اور شہر کی حفاظت کر رہی ہیں۔ ہرات شہر طالبان کے قبضے میں نہیں جا رہا۔‘
ہرات شہر میں طالبان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے ساتھ سابق جنگجو کمانڈر اسماعیل خان بھی میدان جنگ میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ ’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اللہ کی مدد سے دشمن کو شہر میں گھسنے نہ دیں۔‘
بی بی سی کے مطابق ہرات شہر میں حکام کا دعویٰ ہے کہ شہر پر کنٹرول کے لیے طالبان کے تمام حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے اور سو سے زیادہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
حکام نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ شہر کے بعض شمالی علاقوں اور ضلع انجیل میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے اور شہریوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔
دوسری جانب طالبان ترجمان کا دعویٰ ہے کہ اُن کے جنگجو آج بھی ہرات شہر میں موجود ہیں اور اُن کے صرف پانچ جنگجو افغان فورسز کے حملوں میں مارے گئے ہیں۔
طالبان کی جانب سے ہرات اور ہلمند میں افغان فورسز کو بھاری نقصانات پہنچانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔
اُدھر صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ سے بھی سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید لڑائی کی خبریں آ رہی ہیں اور اس شہر کے اکثر باسی اپنے گھروں میں محصور ہیں۔
لشکرگاہ کے ایک شہری نے بی بی سی پشتو کو بتایا کہ شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔ ’ایک طرف فضائی بمباری ہو رہی ہے اور دوسری جانب زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں ہی محصور ہیں۔‘
اطلاعات ہیں کہ طالبان نے ایک ٹی وی سٹیشن کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے اور دیہی علاقوں سے فرار ہونے والے ہزاروں لوگوں نے شہر کی عمارتوں میں پناہ لے لی ہے۔