|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2022

وزیر اعظم عمران خان نے پہلی قومی سلامتی پالیسی کی دستاویزات پر دستخط کر دیئے جس کے مطابق ہمسائے میں جارحانہ اور خطرناک نظریئے کا پرچار پرتشدد تنازعہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے اور دشمن کی جانب سے کسی بھی وقت بطور پالیسی آپشن طاقت کے استعمال کے ممکنات موجود ہیں۔ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ جنگ مسلط کی گئی تو مادر وطن کے دفاع کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کے ساتھ بھرپور جواب دیا جائے گا اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت اور ہر صورت میں تحفظ کیا جائے گا۔

ہر جارحیت کا جواب دینے کے لیے خود انحصاری پر مبنی جدید دفاعی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روایتی استعداد کار کو تقویت دی جائے گی جبکہ دفاعی پیدوار، مواصلاتی نیٹ ورک کی مرکزیت، جنگی میدان کی آگہی اور الیکٹرانک وار فیئر صلاحیت کو بھی تقویت دیں گے۔ دستاویزات کے مطابق ملکی دفاع کے لیے اسلحہ کی دوڑ میں پڑے بغیر کم سے کم جوہری صلاحیت کو حد درجہ برقرار رکھا جائے گا اور پاکستان کی جوہری صلاحیت علاقائی امن و استحکام کے لیے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔

داخلی سلامتی کے لیے نیم فوجی دستوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت، جدت اور ضرورت پر توجہ مرکوز ہو گی۔پالیسی میں کہا گیا ہے کہ فضائی ، بحری، ساحلی سلامتی یقینی بنانے کے لیے ایوی ایشن سیکیورٹی پروٹوکول بہتر اور بحری نگرانی بہتر کی جائے گی۔ دیرپا، مضبوط فضائی نگرانی، اثاثوں کا نیٹ ورک، مواصلاتی نظام اور کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کو وسعت دی جائے گی جبکہ بحری، تجارتی سلامتی اور انسداد بحری قزاقی، جرائم کے خاتمے کے لیے بحری قوت کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔سرحدی مسائل خصوصاً لائن آف کنٹرول، ورکنگ باؤنڈری پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب اور قبائلی اضلاع کی ترقی پر توجہ مرکوز رہے گی۔ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے خلائی سائنس و ٹیکنالوجی میں وسعت اور اسے مستحکم کیا جائے گا جبکہ غلط اور جعلی اطلاعات اور اثر انداز ہونے کے لیے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔اطلاعات، سائبر و ڈیٹا سیکیورٹی ترجیح ہو گی اور نگرانی کی استعداد بڑھائی جائے گی۔ سیکیورٹی کو وسعت، سرکاری امور کی رازداری اور شہریوں کے اعداد و شمار کی سلامتی یقینی بنائی جائے گی۔

بین الاقوامی ٹیکنالوجی نظام کے ساتھ مؤثر انداز میں شمولیت سے قومی مفادات کا مکمل تحفظ کیا جائے گا اور اقتصادی سلامتی کے خطرات کے خلاف مستند، مضبوط اور قابل اعتماد دفاعی صلاحیت کی ضمانت ہو گی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کو دہشتگردی جیسے خطرات کا سامنا ہے جس کیلئے سرحدوں کی حفاظت کو ممکن بنا کر ہی دہشتگردی کو روکا جاسکتا ہے اس سے قبل افغان سرحد سے دہشتگرد داخل ہوکر تخریب کاری کرتے آئے ہیں اور یہ ہر ذی شعور کے علم میں ہے کہ افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت دشمن ملک کے ساتھ مل کر پاکستان میں بدامنی کرتا آیا ہے

خاص کر شدت پسند تنظیموں کے حملوںسے متعدد سانحات رونما ہوئے اور اسلحہ کلچر بھی ہمارے یہاں اسی طرح پروان چڑھا ۔بہرحال قومی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے دفاع ناقابل تسخیر ہونا چاہئے جبکہ مذاکرات کے حوالے سے بھی بات چیت کے عمل کو بڑھانا ضروری ہے تاکہ مکمل امن قائم ہوسکے اور جنگی خطرات ٹل جائیں۔