وزارت اعلیٰ پنجاب کے لیے انتخاب اور حمزہ شہباز کی حلف برداری کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی اپیلوں پر سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے دوبارہ انتخاب ہونے جارہا ہے، فریقین اپنے تمام تحفظات دور لیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی اور چوہدری پرویز الہٰی کی اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دیے کہ اس فل بینچ میں گورنر کے اختیارات کے خلاف اور دیگر کیسز بھی آئے ہیں، عدالت نے مزید کہا کہ ہم 12 بجے تک کیس کو ملتوی کر رہے ہیں۔
ان کہنا تھا کہ کیس کا فیصلہ آج ہی کرنا چاہتے ہیں، تحریک انصاف کے وکیل اور پنجاب حکومت 12 بجے تک معاملات سے متعلق ہدایات لے کر پیش ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 12 بجے عدالت کی معاونت کریں کہ اگر ہم پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوبارہ 16 اپریل کی تاریخ پر لے جائیں اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے پولنگ دوبارہ ہو تو بحران سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ دوبارہ اجلاس بلانے کی صورت میں بھی پولنگ وہی پریزائیڈنگ افسر کروائے گا جس نے 16 اپریل کو کروائی تھی جس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے ہونے والی پولنگ کو بھی چیلنج کیا ہے۔
اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ انتخاب، ڈپٹی اسپیکر ہی کروائے گا کیونکہ اس معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے جسے چیلنج نہیں کیا گیا۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت سے ایک دن کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ کو بریف کرنا ہے جس کے لیے مزید ایک دن درکار ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے حمزہ شہباز کے انتخاب کو چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے پوچھا اگر ہم درخواست منظور کر لیتے ہیں تو حالات کیا ہوں گے تاکہ بحران پیدا نہ ہو۔
عدالت میں حمزہ شہباز کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر حمزہ شہباز کے ہوتے ہوئے الیکشن کروائیں گے تو وہ غیر آئینی الیکشن ہوگا، الیکشن کے لیے کم از کم دس روز کا وقت ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ صورتحال اب ریورس نہیں ہو سکتی کیونکہ 25 لوگ ڈی نوٹی فائی ہو گئے ہیں، جبکہ 5 مخصوص نشستوں سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ 25 اراکین کو نکال کر پریذائیڈنگ افسر نے دیکھنا ہے اکثریت کس کے پاس ہے، ڈی نوٹی فائی ہونے والے افراد اگر اب الیکشن ہوتا ہے تو اس میں شمار نہیں ہوں گے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر پرانی صورتحال بحال ہوتی ہے تو تب وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار تھے۔
جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے، یہ عدالت سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کا حکم جاری کر سکتی ہے۔
جسٹس شاہد جمیل کا کہنا تھا کہ چیف مسنٹر کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن درست ہے یا نہیں یہ لا ڈویژن کا کام ہے ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم تو کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ نے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ دیا، ہم نے اس فیصلے پر عملدرآمد کرانا ہے، آپ دس دن کا وقت مانگ رہے ہیں تاکہ مخصوص نشستوں کا نوٹیفیکیشن ہو جائے، اگر نوٹیفیکیشن ہو بھی جاتا ہے تو وہ لوگ الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں کر سکیں گے جس پر علی ظفر نے کہا کہ وہ ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر 16 اپریل کی پوزیشن بحال ہوتی ہے، ایک فریق اکثریت حاصل کر لیتا ہے تو دوسرا فریق اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتا ہے کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہو گا۔
دوران سماعت مسلم لیگ (ق) کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایک ایم پی اے نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ووٹ نہیں ڈالا، اس ایم پی اے کا ووٹ بھی چیف مسنٹر کے الیکشن میں شمار گیا ہے۔
اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب تو دوبارہ انتخاب ہونےجا رہا ہے جس کے تحفظات ہیں وہ اب دور کر لے۔
جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے وکیل علی ظفر نے 10روز اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے ایک دن کا وقت مانگا ہے ، وہ ہم دیکھیں گے کہ وقت دینا ہے یا نہیں دینا، ہم تھوڑی دیر میں آگاہ کریں گے کہ ہم مزید وقت دیں گے یا نہیں۔
ان ریمارکس کے بعد ججز اپنے چیمبر میں چلے گئے جب کہ کیس کی مزید سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح رہے کہ 16 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے، ان کو وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ دینے والوں میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین بھی شامل تھے۔
منحرف اراکین کے خلاف پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا جس پر فیصلہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا جس کے بعد ایوان میں حمزہ شہباز کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 197 سے کم ہو کر 172 رہ گئی تھی۔
منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں مؤقف اپنایا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کے باعث حمزہ شہباز کے پاس مطلوبہ نمبرز نہیں ہیں، اس لیے ان کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے۔
پرویز الہٰی کی درخواست
چوہدری پرویز الہٰی، جو پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار بھی تھے، نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ حمزہ شہباز نے وزیر اعلی منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہیں کیے، کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کے باعث حمزہ شہباز کے پاس مطلوبہ نمبرز نہیں ہیں۔
درخواست میں بتایا گیا کہ 16 اپریل کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر نے حمزہ شہباز کو بلاجواز وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کامیاب قرار دیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ حمزہ شہباز کا بطور وزیر اعلیٰ حلف کالعدم قرار دیا جائے اور انہیں عہدے سے ہٹا کر وزیر اعلیٰ پنجاب کے نئے انتخاب کے لیے ہدایات جاری کی جائیں۔
پی ٹی آئی کی درخواست
گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے رہنما سبطین خان، زینب عمیر، میاں محمد اسلم اقبال، سید عباس علی شاہ اور احسن سلیم بریارکی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کا الیکشن کالعدم قرار دینے کی پاکستان تحریک انصاف کی درخواست کو آج سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
درخواست میں بتایا گیا کہ حمزہ شہباز کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شمار کیے گیے تھے جبکہ سابق گورنر پنجاب چیمہ نے انتخاب کا نتیجہ ماننے سے انکار کردیا تھا، حمزہ شہباز نے عدالت سے رجوع کرنے کے بعد حلف اٹھایا تھا۔
درخواست کے مطابق گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان کے سامنے پیش کی جانے والی لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور ’حقائق‘ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی صداقت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ پولیس نے ہمارے ووٹرز کو حق رائے دہی استعمال کرنے سے زبردستی روکا، قانون کے مطابق اسمبلی سیشن کے دوران ایوان میں کسی غیر متعلقہ شخص کے آنے پر پابندی ہے تو پولیس ایوان میں کیسے داخل ہوئی۔
ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے نجی لوگوں کا داخلہ روکا مگر ڈپٹی سیکریٹری نے 300 لوگوں کو بلایا۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ حمزہ شہباز کا انتخاب غیر قانونی ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کامیابی کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔
عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ خالی قرار دیا جائے اور حمزہ شہباز کو کام کرنے اور خود کو چیف ایگزیکٹو ظاہر کرنے سے روکا جائے۔