|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2015

اسلام آباد;سینیٹ میں سینیٹر تاج حیدر اور سینیٹر عثمان کاکڑ کی طرف سے پیش کردہ تحاریک پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر پٹرولیم وقدرتی گیس شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جولائی2008ء سے جون2013ء تک پاکستان اسٹیل مل کو104 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے پاکستان اسٹیل ملز نے سوئی ناد رن کا35 ارب سے زائد بل ادا کرنا ہے،گزشتہ سال اپریل سے اب تک گیس کی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کی گئی ہے،وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو پاکستان اسٹیل مل خریدنے کی آفر کی تھی جس پر سندھ حکومت کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا،کوئٹہ میں گیس کی کمی کی شکایات میں گیس کی ڈیمانڈ180ملین کیوبک فٹ ہیں جبکہ سپلائی 147 ملین کیوبک فٹ ہے،اصل ڈیمانڈ سے سپلائی 20فیصد کم ہے۔اس سے قبل تحریک پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر تاج حیدر نے پاکستان اسٹیل مل کے ذمے واجب الادا 37ارب روپے کی رقم تک بقایاجات کی ادائیگی کے لئے پاکستان اسٹیل ملز کی زمین سوِئی ناردرن گیس کمپنی کو منتقل کرنے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ 25اپریل کو ای سی سی کے ہونے والے اجلاس میں پاکستان اسٹیل مل کے حوالے سے بات چیت کی گئی تھی،سوئی ناردرن کو ذمہ 37ارب روپے میں سے19ارب لیٹ پے منٹ سرچارج کئے تھے اس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ پیسہ نہیں لئے جائیں گے جبکہ باقی رقم کو2سال بعد اقساط کی شکل میں دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹیل ملز کے انتظامیہ سے پچھلے دنوں کمیٹی کی ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان سٹیل ملز کو کس طرح تباہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز کی پیداوار کو 77 فیصد تک لے جاسکتے ہیں۔ دس جون 2015 ء کو پیداوار 65 فیصد تک پہنچ گئی تھی مگر حکومت نے اگلے روز بل کا بہانہ بنا کر گیس کی سپلائی منقطع کردی چھ ماہ گیس بند رہنے کی وجہ سے مل کی پیداوار زیرو پر آگئی ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز کو چلانے کیلئے دس سے پندرہ ارب کے اخراجات آسکتے ہیں اور نقصان کو پورا کرنے کیلئے تین سال لگ سکتے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے اپنی پیش کردہ تحریک پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا سب سے سرد اور ٹھنڈہ علاقہ کوئٹہ ہے قلات میں منفی 17تک سردی ہوئی جبکہ وہاں پر گیس کا پریشر نہیں ہے اور80فیصد علاقوں میں گیس سرے سے آتی ہی نہیں ہے،حکومت سے درخواست ہے کہ بلوچستان کو گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے،ڈاکٹر جہانزیب نے کہا کہ بلوچستان سے گیس نکلتی ہے لیکن سردیوں میں ان کیلئے گیس نہیں ہے جو کہ زیادتی ہے گیس کے معاملے پر بلوچستان کے حوالے سے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے۔مسلم لیگ(ن) کی سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ بلوچستان سے نکلی ہوئی گیس کے پی کے تک پہنچ رہی ہے لیکن کوئٹہ میں گیس نہیں ہے،بلوچستان کے صرف5اضلاع میں گیس دی گئی جبکہ باقی صوبے گیس پائپ لائن نہیں دی گئی اس کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے،ایم کیو ایم کے سینیٹر کرنل مشہدی نے کہا کہ سب سے پہلے حق قدرتی وسائل کا اسی صوبہ کو ہے جہاں سے وہ نکل رہی ہے،اس درجہ حرارت میں رہنابہت مشکل ہوتا ہے،عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومت کو متبادل گیس ضرور مہیا کرنی چاہئے،اگر نہیں ہوسکتی تو ان کی گیس کا پریشر ضرور بڑھانا چاہئے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہم بلوچستان کے لوگوں کو دیوار سے لگا رہے ہیں،لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے،گیس وہاں سے نکلتی ہے مگر گیس مہیا نہیں کی جارہی اس مسئلہ پر ایک خصوصی کمیٹی بنا دی جائے۔بحث کو سمیٹتے ہوئے اس موقع پر وفاقی وزیر قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کوئٹہ میں گیس کی کمی ہے ڈیمانڈ 180ملین کیوبک فٹ تک پہنچ گئی ہے ابھی بھی 35ملین کیوبک فٹ کمی کا سامنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کھانا پکانے کے اوقات میں گیس مہیا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں،آئندہ سال تک یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا،کوئٹہ کو گیس آمریت کے دور میں ملی،جمہوری حکومت کچھ نہیں دے سکتے تھے،گیس کی کمی کو دور کرنے کیلئے مستونگ،قلات میں 40کروڑ روپے خرچ کیا ہے مگر پیچھے سے گیس کم آرہی ہے اس لئے کمی کو پورا نہیں کیا جاسکا ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ کوئٹہ میں90فیصد لوگ گیس کا بل ادا نہیں کرتے،ایل پی جی کے ذریعہ بلوچستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو گیس دینے کی کوشش کر رہے ہیں ہماری کوشش ہے کہ اس مسئلہ کو جلد از جلد حل کیا جائے گا