|

وقتِ اشاعت :   June 8 – 2023

بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر وزیراعلئ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا وفاقی بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کااعلان کردیا بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی بجٹ سیشن کا حصہ نہیں بنے گی ۔بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز وفاقی بجٹ سیشن میں شرکت نہیں کرینگے ۔

بی اے پی کے اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی واضع ہدایات جاری کردی گئی ہیں ۔پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے رکن قومی اسمبلی و سینٹ کے خلاف انضباطی کاروائی کر کے ڈی سیٹ کر دیا جاۓ گا ۔این ای سی کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی مرکزی حکومت کے رویہ کی وجہ سے کیا۔وزیراعلئ کاکہنا تھا بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کی وجہ بھی وفاقی حکومت کی بلوچستان کے لیۓ سرد مہری ہے۔

ہمار ی وفاقی حکومت سے کوئی پر خاش نہیں اختلاف کی وجہ اصولی ہے۔بلوچستان شدید مالی مسائل کا شکار ہے ۔

ان مسائل کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کا عدم تعاون ہے ۔بار ہا رابطوں اور یاد دہانیوں کے باوجود ہمیں ہمارا آئینی حق نہیں دیا جارہا

وفاقی حکومت وعدے اور یقین دہانیاں تو کراتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا ہمارے مطالبے آئینی بنیاد پر ہیں کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کر رہے۔پی پی ایل کئی سالوں سے ہمارے واجبات ادا نہیں کررہی جو 45 ارب روپے سے زائد تک پہنچ چکے ہیں ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان سے کسی معاہدے کے بغیر سوئی گیس فیلڈ میں پی پی ایل کا آپریشن جاری ہے ۔پی پی ایل کمپنی کا انتظامی اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔

وفاقی حکومت پی پی ایل کے واجبات کے ادائیگی میں نہ تو کوئی دلچسپی لے رہی ہے اور نہ ہی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے منصوبے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے عدم تکمیل کا شکار ہیں

ان منصوبوں کے لیۓ مختص فنڈز کا نصف بھی جاری نہیں کیا جاتابلوچستان کے وفاقی منصوبوں کے ٹینڈر تو ہوتے ہیں لیکن فنڈز کہیں اور منتقل کر دیۓ جاتے ہیں

گزشتہ سال سیلاب میں بلوچستان کی قومی شاہراہوں کو شدید نقصان پہنچااین ایچ اے نے ان شاہراہوں کی بحالی کے لیۓ کوئی کام نہیں کیا

ان شاہراہوں پر سفر کر کے محسوس ہوتا ہے کہ ہم پھر سے پتھر کے زمانے میں پہنچ گیۓ ہیںکراچی کو کوئٹہ اور سنٹرل ایشیاء سے منسلک کرنے والی شاہراہ کے آٹھ پل سیلاب میں بہہ گیۓ تھے ایک سال بعد بھی متبادل کچے راستوں سے گاڑیاں گزرتی ہیں ۔

وزیراعظم نے ایک سال قبل وزیراعلئ سیکریٹریٹ میں منعقدہ تقریب میں چمن کراچی شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا

وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ 18 ماہ میں یہ منصوبہ مکمل ہوگابدقسمتی سے ابھی تک اس منصوبہ کا 20 فیصد کام بھی نہیں ہوا ۔

جس رفتا ر سے کام جاری ہے اور فنڈز دیۓ جا رہے ہیں یہ منصوبہ 18 ماہ تو کیا 18 سال میں بھی مکمل نہیں ہو گا

این ایف سی کا ہمارا شئیر بروقت نہیں ملتا اور اس نیں کٹوتی بھی کی جاتی ہے

وزیراعظم کی جانب سے سیلاب کے دوران اعلان کردہ دس ارب نہیں دیۓ گیۓ1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر ساتواں این ایف سی ایوارڈ اپنی مدت پوری کر چکا

ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کی بنیادآبادی تھی حالات کی خرابی کے باعث بلوچستان میں 1998 کی مردم شماری نامکمل رہی جسکا نقصان ہمیں وسائل کی تقسیم میں ہوا 

ہمارا مطالبہ ہے کہ نیا این ایف سی ایوارڈ فوری طور پر کیا جاۓ جو آئینی تقاضہ بھی ہےنئی مردم شماری کے مطابق نیا این ایف سی ایوارڈ نہ ہونے سے بلوچستان کو سالانہ دس ارب سے زائد کا نقصان ہو رہا ہےوفاقی حکومت ہمارے مطالبات اور موقف کو سنجیدگی سے لے

اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وفاق اور صوبے میں پیدا خلیج مزید بڑھے گی جو وفاق کے لیۓ نقصان دہ ہو سکتا ہےبلوچستان کا استحصال کسی صورت قبول نہیں اپنے جائز آئینی موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں بلوچستان کے عوام ہماری جانب دیکھ رہے ہیں ہم انکے حقوق کے حصول سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے بلوچستان کی ترقی اور پسماندگی دور کرنے کے لیۓ اسلام آباد میں بیٹھ کر صرف باتیں کی جاتی ہیں بلوچستان کے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں یہاں عملی اقدامات کی ضرورت ہےوزیراعلئ بلوچستان نے مزید کا کہ آصف علی زردای مولانا فضل الرحمن سردار اختر جان مینگل اور صوبے کے دیگر قومی لیڈروں سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے موقف کو تقویت دیں ۔