اسلام آباد: سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف بنایا گیا نو رکنی بینچ قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق کے علیحدہ ہونے سے ٹوٹ گیا، چیف جسٹس نے نیا سات رکنی بنچ بنادیا جو مقدمے کی سماعت کررہا ہے، عدالت نے فوری طور پر حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائلز کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔
چیف جسٹس نے وکلاء سے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، بنچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کچھ آبزرویشن دینا چاہتا ہوں۔
فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں خوشی کا اظہار تو کرنے دیں.
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ خوشی کا اظہار باہر کر سکتے ہیں یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کے مطابق بینچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے، کل شام مجھے کاز لسٹ دیکھ کر تعجب ہوا، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ 5 مارچ 2023ء کو نہ بل آیا تھا نہ ہی ایکٹ بنا تھا، مجھے تعجب ،دکھ اور صدمہ ہوا، 31 مارچ کو رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی نے سرکلر جاری کیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کا سرکلر جاری کرنا سپریم کورٹ کی وقعت کو ظاہر کرتا ہے، سپریم کورٹ 15 مارچ کو میرا فیصلہ واپس لے لیتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اپنی دانست اور عقل کے مطابق بات کروں گا، جب ایک بینچ کا حصہ نہیں تھا تو مجھے کیوں شامل کیا گیا؟میں نے ایک نوٹ لکھا جو 8 اپریل کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی پاکستان کا قانون ہے، میں نے ہر نوٹ اپنے ساتھی سے شیئر کیا، ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا، انکوائری کمیشن کو پانچ رکنی بینچ نے کام سے روک دیا، انکوائری کمیشن کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا نہ جواب مانگا گیا۔
سپریم کورٹ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، اس بینچ کو کورٹ ہی نہیں مانتا، فائز عیسیٰ
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں کسی فیصلے پر رائے نہیں دے رہا، 4 درخواستیں دائر کی گئیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی پہلی درخواست تھی جس پر اعتراض لگا، میں آج اس بینچ سے علیحدہ ہورہا ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا میں اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، میں اس بنچ کو کورٹ ہی نہیں مانتا، اس وقت تک بننے والا ہر بینچ غیرقانونی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری رائے کو یہ نہ سمجھا جائے کہ میں نے کیس سننے سے انکار کر دیا، میرا موقف ہے کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔
قاضی فائز عیسی کے بنچ سے علیحدہ ہونے کے بعد جسٹس طارق نے بھی ان سے اتفاق کیا اور بنچ سے علیحدہ ہوگئے۔ جسٹس طارق نے کہا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب سے اتفاق کرتا ہوں، اگر کل قانون درست قرار دے دیا گیا تو پھر اپیل کا کیا ہوگا؟
دو ججز کے علیحدہ ہونے سے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔
ججز کے علیحدہ ہونے پر بنچ اٹھنے لگا جس پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں، چیف جسٹس صاحب اور دیگر ججز سے گزارش ہے بیٹھے رہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی اس معاملے کا کچھ کرتے ہیں، یہ کہہ پر تمام ججز چلے گئے۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ گھر کا تنازعہ ہے جبکہ باہر سے لوگ حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتزاز احسن سے کہا کہ اعتزاز احسن صاحب پلیز! میں آپ کا احترام کرتا ہوں، مہربانی فرما کر سپریم کورٹ کو گھر نہ کہیں، یہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے گھر نہیں۔
ججز کے علیحدہ ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے دونوں معزز جج صاحبان کا مکمل احترام ہے، میرے دل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود سمیت تمام ججز کے لیے عزت و احترام ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ خیر کرے گا انشاءاللہ ، دعا ہے جو بھی فیصلہ آئے حق اور انصاف کے مطابق ہو، دعا ہے جو بھی فیصلہ آئے وہ لوگوں کیلئے بہتر ہو، ہم اسے دیکھتے ہیں۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ 25 کروڑ عوام کا معاملہ ہے، پچیس کروڑ عوام کہاں جائے گی؟ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ جب پہلے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟ جب پچیس کروڑ عوام کا کیس آئے گا پھر دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے نیا سات رکنی بنچ تشکیل دے دیا
دریں اثنا ذرائع نے بتایا ہے کہ چیف جسٹس نے بنچ ٹوٹنے پر نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے جو کہ سات رکنی ہے اس بنچ نے مقدمے کی سماعت شرو کردی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کسی کو اس بینچ پر اعتراض ہے تو پہلے بتا دے۔ درخواست گزار اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی کو بھی اس بینچ کی تشکیل پر اعتراض نہیں، اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں۔ بعدازاں پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گرمیوں کی چھٹیوں کو بھی مدنظر رکھا جائے، چھٹیوں کی وجہ سے ججز مختلف رجسٹریوں میں بیٹھیں گے۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ میرے کیس میں درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض عائد کیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ملٹری کورٹس کے سوا بھی بہت سی استدعائیں ایک ساتھ کی گئی ہیں، کوشش کریں کہ ملٹری کورٹس کے سوا دیگر استدعا کو واپس لے لیں۔ اس پر وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ملٹری کورٹس بنانے کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہم مقدمات میں ملٹری کورٹس کے معاملے پر فوکس کر رہے ہیں، ہم آپس میں مشاورت کر کے بتائیں گے کہ آپ کو الگ سننا ہے یا اسی کیس میں سنیں گے۔
دوران سماعت لطیف کھوسہ نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کا حوالہ دیا جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میرے خیال میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کا نوٹی فکیشن واپس ہو گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ 15 مئی کو کور کمانڈر میٹنگ میں کہا گیا 9 مئی کے واقعات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، فارمیشن کانفرنس کا بیان بھی موجود ہے.
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ پریس ریلیز میں یہ کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے اثبات میں سرہلایا اور کہا کہ جی پریس ریلیز میں یہ ہی کہا گیا ہے بعدازاں انہوں ںے پریس ریلیز پڑھ کر سنا دی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ کیا کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کرسناؤں؟ اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ درخواستوں کے ساتھ لگایا گیا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کور کمانڈر کانفرنس اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے پڑھ کر سنائے اور کہا کہ کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے، فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں کرنل لیول کے اور اس کے اوپر کے افسران شریک ہوئے تھے، فارمیشن کمانڈر کانفرنس میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کرنے کا فیصلہ خلاف آئین ہے، سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں بتائیں ایف آئی آر ہوئی؟ انسداد دہشت گردی عدالت میں کیا ہوا؟ ہمیں ایف آئی آر بتائیں کون سی دفعات لگائی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں حقائق تک محدود رکھیں، اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو یہ نہیں کہتا کہ چھوڑ دیا جائے، کہیں بھی کسی بھی حملے کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سب بیانات میں ہمیں دکھائیں کہ ٹرائل کہاں شروع ہوا؟
لطیف کھوسہ نے انسداد دہشت گردی عدالتوں سے ملزمان کی حوالگی کے فیصلے پڑھنا شروع کردیئے اور کہا کہ ملک کی تمام ملٹری قیادت نے بیٹھ کر فیصلہ دے دیا ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ کیا یہ دستاویز ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا آئی ایس پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، فارمیشن کمانڈرز نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟ 7 جون کو فارمیشن کمانڈر کا اعلامیہ آیا، فارمیشن کمانڈر میں کرنل سے لے کر سب آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، فارمیشن کمانڈرز اعلامیے میں ٹرائل شروع کرنے کا کہا گیا ہے اس لیے عدالت سے حکم امتناع دینے کی استدعا کی۔
جسٹس منصور نے کہا کہ یہ اعلامیہ آپ نے کہاں سے لیا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ دونوں اعلامیے آئی ایس پی آر کی ویب سائیٹ سے لیے، دونوں اعلامیوں پر کابینہ نے بھی مہر ثبت کردی ہے تو فئیر ٹرائل کہاں ہوگا؟ 9 مئی کے واقعہ کی یقینا کوئی وضاحت نہیں، صرف جناح ہاؤس یا کور کمانڈر ہاوس ہی نہیں میرے گھر پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ آپ نے اعلامیے بتا دئیے اب قانون بتادیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ لاہور، ملتان، راولپنڈی سے لوگوں کو ملٹری ٹرائل کے لیے حوالے کیا گیا، حملہ آوروں سے میری کوئی ہمدردی نہیں، مجھے ساتھی کہہ رہے ہیں کور کمانڈر ہاؤس کو جناح ہاؤس نہ کہیں، میں نے بھی جناح ہاؤس کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔
انہوں ںے کہا کہ مقدمات قتل، اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کیے گئے، 9 سے 10 ہزار افراد انہی مقدمات کے تحت گرفتار کیے گئے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات کا آرمی ایکٹ سے تعلق بنتا نہیں ہے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر ایف آئی آرز کے ناموں کے تذکرے پر دلچسپ مکالمہ سامنے آئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمیں ناموں سے دلچسپی نہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 10 مئی کو پورے چار ہزار افراد کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا، جتنی بھی ایف آئی آرز درج ہوئیں ان میں آرمی ایکٹ کی دفعات کا کوئی حوالہ شامل نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جو شقیں لگائی گئی ہیں وہ ہیں کیا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جو لوگ مقدمات میں نامزد ہوئے انہوں نے اسے چیلنج کیا اس پر کھوسہ نے کہا کہ کون چیلنج کرسکتا ہے؟ جسٹس عائشہ نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ ایف آئی آرز میں لگائی گئی دفعات چیلنج ہو سکتی ہیں یا نہیں؟ لطیفہ کھوسہ نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے آرڈر کو نہیں مانتے، یہاں کہاں مانیں گے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے ان سے پوچھ لیا جائے کن دفعات کا اطلاق کیا جا رہا ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل پوچھ لیں، ہمیں تو وہ کچھ بتاتے نہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پتا نہیں لگ رہا کن دفعات کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں، یہ بتائیں! کتنے لوگوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ پورے ملک سے لوگ اٹھائے گیے آپ ججز بہترین ججز ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں، اس بات پر کمرۂ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر ایک عمل انہوں نے شروع کیا وہ کیسے شروع ہوا؟ آپ ہمیں قانونی سوالات کا قانونی جواب دیں، جسٹس منصور نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے کس قانون کے تحت لوگ فوجی ٹرائل کے حوالے کیے؟ کیا انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے کوئی شواہد تھے جن کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا؟ کیا انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل کا فورم ہے یا نہیں؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ اس پر وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر دہشت گردی کا پہلو ہو تو ایسا وہ کرسکتے ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ جن افراد کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھیجا گیا کیا انھوں نے اس اقدام کو چیلنج کیا؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ان افراد کا میں وکیل نہیں مجھے معلوم نہیں جب کہ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ان افراد تک کسی کی رسائی ہی نہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ مقدمات دائر ہوں بھی تو کس نے سننا ہے، سپریم کورٹ کے احکامات نہیں مانے جارہے تو ان عدالتوں کا حکم کون مانے گا؟
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ پہلے آرمی ایکٹ کی سیکشن ٹو ون ڈی کو پڑھیں، آرمی ایکٹ کی کس شق کے تحت ٹرائل کیا جارہا ہے یہ واضح نہیں، درخواست گزاروں نے بھی جو چیزیں لگائیں وہ نامکمل ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم ملک اور 25 کروڑ عوام کی فکر میں آئے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جاننا چاہتے ہیں مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجنے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مقدمات ملٹری کورٹس بھیجنے کا فیصلہ تو عدالت کرے گی، ججز کو تو وجوہات کے ساتھ فیصلہ دینا ہوتا ہے، کیا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ان فیصلوں کو چیلنج نہیں کرےگا؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتوں میں بھی نہ ملزم پیش ہوئے نہ ہی وکلاء، جسٹس منیب نے پوچھا کہ کیا انسداد دہشت گردی کی عدالتیں آرمی ایکٹ میں آنے والوں کا ٹرائل کرسکتی ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مقدمات میں تو میں پیش ہوتا رہا ہوں۔ جسٹس عائشہ نے کہا کہ حوالگی تو ان کے اپنے افراد کی ہوسکتی ہے سویلینز کی نہیں۔
فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد
لطیف کھوسہ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی، سپریم کورٹ نے فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کر دی۔
ہر چیز کا جواب حکم امتناع نہیں ہوتا، ہم ابھی حکم امتناع جاری نہیں کریں گے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز کا جواب حکم امتناع نہیں ہوتا، ہم ابھی حکم امتناع جاری نہیں کریں گے، امید ہے ابھی تک کسی سویلین کا فوجی ٹرائل شروع نہیں ہوا ہوگا، اٹارنی جنرل صاحب ہم آپ کو سنے بغیر فیصلہ نہیں دیں گے، ہم تمام فریقین کو سننے کے بعد جلد اس کیس کا فیصلہ جاری کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج کل لوگوں کی آپس کی گفتگو ریکارڈ کی جا رہی ہے، فون ٹیپنگ کا معاملہ اب رازداری کے حق سے آگے بڑھ شخصی آزادی تک پہنچ گیا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پورا معاشرہ خوف کا شکار ہے، تفصیلات میں یہ بھی بتائیں کہ کتنی خواتین فوجی یا سویلین حراست میں ہیں، کتنے افراد سویلین اور ملٹری کی تحویل میں ہیں، آپ صحافیوں کی بات کرتے ہیں میں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا، صحافیوں کو رہائی ملنی چاہیے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کا کیس تو صرف یہ ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں، سمجھ نہیں آ رہی آپ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کیوں چیلنج کر رہے ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب انسداد دہشت گردی کی عدالت کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سننے کا اختیار نہیں تو وہ کسی فرد کو فوج کے حوالے کرسکتی ہے؟
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ عدالتوں نے ملزمان کی حوالگی کے فیصلوں میں ایکٹ سیکشن 549 (3) کا حوالہ دیا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزارت قانون کی ویب سائٹ پر 549/3 ہے ہی نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی کس شق کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیا جاسکتا ہے؟ آپ کا کہنا ہے ایسی کوئی شق نہیں اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایکٹ کے تحت صرف سویلینز کا ٹرائل نہیں ہوتا۔ جسٹس عائشہ نے کہا کہ سیکشن 2 ڈی سے متعلق آپ کا سارا کیس ہے، آپ نے قانوں کیوں چیلنج کیا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں سزا انسداد دہشت گردی ایکٹ سے کم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کہنا ہے فوجی عدالتوں کے فیصلوں میں اپیل کا حق، فئیر ٹرائل اور وجوہات نہیں ہوتیں؟
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن اور شہری کرامت علی سمیت دیگر نے سویلین کے ملٹری ٹرائل کو چیلنج کیا ہوا ہے۔