کوئٹہ : بی ایس او آزاد کے سابق چیئر مین بشیر بلوچ نے کہا کہ سنگت حیربیار کی جانب سے اشتراک عمل کی پیش کش کو ہر ذی شعور بلوچ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسکے ردعمل میں دیگر آزادی پسند دوستوں کی طرف سے مثبت جواب اتحادی عمل کو مزید ممکن بنانے میں اہم پیش رفت ثابت ہوگی،اگرآج ہم جذبات و خواہشات سے بالا تر ہوکر منتشر بلوچ قوت کو یکجا نہ کرسکے تو تاریخ کے بے رحم صفحوں میں انتہائی نالائق اور سطحی سوچ کے مالک جہد کاروں میں شمار ہونگے،تمام تر سچائی اور حقائق سے لیکر وقت و حالت کو بھانپ کر چیلنجز اور قومی تقاضات سے مکمل باخبر ہوکر پھر بھی اپنی مخصوص شناخت اور سوچ کی قربانی سے گریزاں رہنا دانش مندی کے زمرے میں نہیں آتا،تحریک میں کل سے لیکر آج تک اور مستقبل میں بھی اختلافات اور تضادات ضرور جنم لیتے رہیں گے، ایسا نہیں ہے کہ اتحاد ان تمام بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا نسخہ ہے لیکن اتحاد ان تضاد و اختلافات کو حکمت سے حل کرنے اور مسائل کو اپنے مخصوص عینک سے دیکھنے کے بجائے وسیع تناظر میں جانچنے کا پلیٹ فارم و موقع ضرور مہیا کرتا ہے، دوسرے تحاریک کے تاریخ پر نظر دوڑایا جائے تو یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ ہر متحرک عمل کی کوکھ سے ہمیشہ مختلف خیال سوچ جنم لیکر بعد میں تضاد یا اختلاف کی شکل میں رونما ہوتے ہیں،لیکن قوتوں کی قربت سے ان کی سدباب اور حل کے ساتھ ہم خیالی کی سوچ کو پروان چڑھا کر تحریک کو منظم اور فعال کیا جاسکتا ہے اور تضادات پھر قومی عمل پر زیادہ اثر انداز نہیں ہونگے۔ اپنی غلط پالیسوں اور غلطیوں کو اپنوں کے سامنے کھلم کھلا ماننا کوئی معیوب عمل نہیں ہے۔بلکہ دشمن اور اس کے زرخرید دلالوں کے سامنے وقتی طور پر کمزور پڑ جانا تاریخ میں بد ترین داغ ہے، جس کوکوئی بھی مخلص اور بہادر بلوچ برداشت نہیں کرسکتا،آج بلوچ مختلف ٹکڑوں میں ہوئے بھی بہادری کے ساتھ دشمن کی تمام تر طاقت جبر کو برداشت کر تے آرہے ہیں، کل کو اگر منظم ہوتی ہے تو جبر کے ردعمل میں دشمن کو موثر جواب دینے کی صلاحیت بھی رکھنے میں کامیاب ہوگا۔اگر حقیقی بنیادوں پر دیکھا جائے تو دشمن کی تمام تر جبر و بربریت مختلف حربوں اور ہتھکنڈوں نے بلوچ معاشرے میں اپنے منفی اثرات اس حد تک نہیں چھوڑے جتنا آپسی تضادات اور رویوں نے ناامیدی اور مایوسی کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔آج پورے یقین کے ساتھ ہم مکمل پر امید ہوکر کہتے کہ بلوچ نوجوان آج بھی قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر دشمن کے خلاف موثر جنگ کیلئے تیار ہیں،نوجوانوں کی آج کی سوچ کو کل کی سوچ سے موازنہ کرکے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی کے جنگوں کے مقابلے میں آج دشمن کے خلاف وہ موثر جواب سامنے آئیں گے جسکا دشمن کو اندازہ بھی نہیں او یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آج کی ان باتوں کو وقت ہی خود ثابت کردے گی، آج ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ باحوصلہ، با ہمت شعور اور جذبے کو ایک منظم اور مضبوط منصوبہ بندی کے تحت عملی شکل میں لانا اور اسے قومی قالب میں ڈھالنا ہماری ہی ذمہ داری اور فرض ہے آج اگر ہم اپنے فرض سے بے خبر اور بے احساس ہوکر خواب غفلت میں رہے تو تاریخ میں ہمیں لعنت کے سوا ء اور کچھ نہیں ملے گا۔آج دشمن کے ساتھ دشمن کے ٹکڑوں پر پلنے والے بھی اتحادی عمل کو سبوتاڑ کرنے کی مکمل تگ و دو کر رہے ہیں۔ہمیں مکمل سنجیدگی کے ساتھ اتحادی عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔معمولی سی معمولی چیزوں اور رویوں کو نظر انداز کرکے بنیادی اور اہم تضادات پر متعلقہ فورم پر بحث و مباحثہ کرکے صبر و تحمل اور باریک بینی کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوگا۔