کوئٹہ: کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے بم دھماکے سے ٹریفک پولیس چوکی تباہ ہوگئی ، ٹریفک پولیس کے دو اہلکار شہید اور آٹھ افراد زخمی ہو گئے ۔ پولیس کے مطابق سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے سامنے سریاب اور سبزل روڈ کے سنگم پر قائم ٹریفک پولیس چوکی کو بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے سے چوکی مکمل طور پر تباہ اور وہاں بیٹھے ٹریفک پولیس اہلکار سپاہی ارشد اور سپاہی تنویر جاں بحق جبکہ تین اہلکاروں سمیت آٹھ افراد زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے بعد امدادی ٹیمیں، پولیس اور ایف سی اہلکار دھماکے کی جگہ پہنچے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ امدادی ٹیموں نے زخمیوں اور شہید اہلکاروں کی میتوں کو سول اسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ زخمیوں میں بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم اور راہ گیر شامل ہیں جنہیں امدادی ٹیموں نے سول اسپتال منتقل کردیاجہاں ایمر جنسی نافذ کی گئی ۔اسپتال حکام کے مطابق زخمیوں میں ٹریفک پولیس کے سب انسپکٹر محمد اجمل، سپاہی محمد رمضان، ڈسٹرکٹ پولیس کے سپاہی محمد رفیق ، بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم شہزاد، راہ گیر سانوال خان، گیارہ سالہ بچہ ارشد اور محمد اکبر شامل ہیں۔ چار زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کردیا گیا جبکہ تینوں زخمی اہلکاروں اور طالب علم شہزاد کو مزید علاج کیلئے کمبائنڈ ملٹری اسپتال منتقل کردیا گیا۔ زخمی اہلکار محمد رفیق نے بتایا کہ وہ ٹریفک اہلکاروں کے ہمراہ چوکی کے اندر کھانا کھا کر اٹھے ہی تھے کہ زوردار دھماکا ہوا۔ دوسرے زخمی شہزاد نے بتایا کہ وہ بلوچستان یونیورسٹی میں اپنی کلاس ختم ہونے کے بعد واپس جارہے تھے جب دھماکا ہوا۔ مجھے آنکھوں اور جسم کے مختلف حصوں پر زخم آئے ہیں ۔ عینی شاہد عبدالغفورنے کہا کہ’’ وہ قریب واقع اپنے ہوٹل میں چائے بنارہا تھا جب زوردار دھماکا ہوا تو در و دیوار ہل گئے۔ عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ جب باہر نکلا تو ہر طرف دھواں اور گرد وغبار تھا اور افرا تفری تھی ۔لوگ بھاگ رہے تھے۔ ٹریفک پولیس کے سارجنٹ اور ان کے ایک ساتھی کو شدید زخمی حالت میں دیکھا جبکہ ایک سپاہی کے تو نوے فیصد کپڑے جل گئے تھے ۔ میں نے اپنے ہوٹل سے کپڑا لاکر اس کے جسم پر ڈالا۔ ‘‘ ۔عبدالغفور نے بتایا کہ دھماکے کے وقت زیادہ رش موجود نہیں تھا ۔ یونیورسٹی کے باہر صبح نو بجے سے گیارہ بجے اور شام چار بجے سے رات آٹھ بجے تک زیادہ رش ہوتا ہے۔ ایک اور زخمی عبدالغنی نے بتایا کہ ’’ہم کچھ ساتھیوں کے ہمراہ قریب ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اس دوران دھماکے کی آواز سنی اورشیشے ٹوٹنے کی ۔چیخ و پکار بھی ہورہی تھی۔ ٹریفک پولیس والے سپاہی کافی زخمی ہوئے تھے ۔ لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے کیونکہ دھماکے کی آواز سے سارے لوگ خوفزدہ تھے۔ ‘‘جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے کے بعد بم ڈسپوزل اسکواڈ نے بتایا کہ دو کلو ٹائم ڈیوائس بم چوکی کے ساتھ مٹی کی بوری میں رکھا گیا تھا۔ دیسی ساختہ بم میں صرف بارود کا استعمال کیا گیا تھا۔ جاں بحق ہونے والے اور زخمیوں کو جسم پر زخم جھلسنے سے آئے ہیں۔وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی ،اسسٹنٹ کمشنر سٹی بتول اسدی، ڈی آئی کوئٹہ منظور سرور چوہدری ، ایس ایس پی آپریشن ندیم حسین، ایس ایس پی ٹریفک پولیس حامد شکیل اورایف سی حکام جائے وقوعہ پہنچے۔ اس موقع پر بات چیت کرتے ہو ئے میر سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا نشانہ ٹریفک پولیس کی چوکی تھی ۔ بلوچستان کے عوام، حکومت اور تمام سیکورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہیں۔دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں ایسے واقعات کو رول آؤٹ نہیں کیا جاسکتا۔ بزدلانہ حملوں سے فورسز کے حوصلے پست نہیں کئے جاسکتے ،آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے دہشت گردی کے واقعات میں بہت حد تک کمی آئی ہے تاہم حکومت پر عزم ہے اور عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنا یا جائیگا۔ ۔جبکہ ڈی آئی جی کوئٹہ منظور سرور چوہدری نے میڈیا کو بتایا کہ عام حالات میں بھی پولیس کو اس طرح کے حملوں کے خطرات رہتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جس مربوط طریقے سے دہشتگردوں کے خلاف کام کیاہے اس کے بعد ہمیں اس طرح کے دہشتگرد حملوں کے زیادہ خدشات تھے۔ پولیس ایسے واقعات سے ڈرنے والی نہیں ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ دہشتگردی کی وارداتوں کی مکمل روک تھام کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔