کوئٹہ: جعفرآباد کے ایس ایس پی جہانزیب خان کاکڑ ڈیرہ اللہ یار میں قائم اپنے دفتر میں پراسرار طور پر مردہ حالت میں پائے گئے۔ ان کی کنپٹی پر گولی لگی ہوئی تھی۔ ابتدئی طور پر پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ خودکشی کا معلوم ہوتا ہے تاہم خودکشی کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔ پولیس نے مختلف پہلوؤں پر تحقیقات شروع کردی ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور آئی جی پولیس نے بھی واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق ایس ایس پی جعفرآباد جہانزیب خان کاکڑ پیر کی صبح ڈیرہ اللہ یار میں واقع ایس ایس پی دفترمیں مردہ حالات میں پائے گئے۔ پولیس کے مطابق انہوں نے خود کو نائن ایم ایم پستول سے کنپٹی پر گولی ماری۔ انہوں نے خودکشی سے قبل اپنے ماتحت عملے کے علاوہ کسی سے ملاقات کی۔ بتایا جاتا ہے کہ جہانزیب خان کاکڑ حسب معمول دس بجے سرکاری گھر سے ملحقہ اپنے دفتر پہنچے۔ کچھ دیر بعد اردلی کو بلاکر کہا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں اور وہ کسی سے ملاقات نہیں کرنا چاہتے لہٰذا کسی کو اندر آنے نہ دیا جائے۔ اس کے بعد وہ دفتر سے ملحقہ سائیڈ روم میں چلے گئے۔ وہاں بھی پریشان نظر آئے اور کئی گلاس پانی پیا۔ اس دوران جہانزیب کاکڑ نے اپنے اسکواڈ انچارج رحیم داد کوبلاکر ان سے اپنا پستول طلب کیا۔جس پر اسکواڈ انچارج نے گاڑی سے پستول نکال کر سائیڈ روم میں ان کے حوالے کردیا۔ ایس ایس پی نے ماتحت عملے کو باہر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے بتایا کہ کسی کو اندر آنے نہ دیا جائے۔ کچھ دیر بعد ڈپٹی کمشنر صحبت پور زین العابدین انصاری پہنچے اور ایس ایس پی جہانزیب کاکڑ سے ملاقات کرنا چاہی تو ان کے ماتحت عملے نے بتایا کہ صاحب نے کسی سے بھی ملنے سے منع کیا ہے۔ پندرہ بیس منٹ تک انتظار کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر صحبت پور خود اندر چلے گئے۔ دفتر میں کسی کو نہ پاکر سائیڈ روم میں گئے تو وردی پہنے ایس ایس پی جہانزیب کاکڑ کو خون میں لت پت پایا۔ انہیں کپنٹی پر گولی لگی تھی جبکہ پستول ان کے بائیں ہاتھ کے قریب گود میں پڑی ہوئی تھی۔ان کے موبائل فون ، ٹیلی فون ڈائری اور دیگر سامان صوفے پر موجود تھا۔ جس پر ڈپٹی کمشنر صحبت پور چیختے ہوئے باہر آئے اور عملے سے کہا کہ جہانزیب کاکڑ خون میں لت پت ہیں۔ آپ لوگ کیا کررہے تھے۔ ماتحت عملے نے بتایا کہ سائیڈ روم سے آواز باہر نہیں آتی۔ اس لئے انہوں نے گولی چلنے کی آواز نہیں سنی۔ بعد ازاں متعلقہ حکام کو فوری طور پر آگاہ کیا گیا۔ ڈی آئی جی نصیرآباد رینج شرجیل کریم کھرل ، ڈپٹی کمشنر جعفرآباد ،ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران بھی موقع پر پہنچے۔ متوفی کی لاش سول اسپتال ڈیرہ اللہ یار پہنچائی گئی جہاں ڈاکٹرز نے اس کا معائنہ کیا۔ ڈاکٹرز نے متعلقہ پولیس افسران سے پوچھا کہ جہانزیب کاکڑ ‘‘لیفٹی’’ تو نہیں تھے جس پر ڈی ایس پی غلام حسین نے بتایا کہ نہیں، وہ دائیں ہاتھ کا استعمال کرتے تھے۔ ڈاکٹرز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ متوفی کو انتہائی قریب سے کنپٹی پر بائیں جانب سے گولی لگی ہے جو دائیں جانب سے خارج ہوئی۔ پولیس نے جہانزیب کاکڑ کے موبائل فون اور ڈائریری قبضے میں لیکر تمام دفتری ریکارڈ کوسیل کردیا ہے۔ جبکہ تفتیشی ٹیم تشکیل دے کر ایس ایس پی آفس کے اردلی ، اسکواڈ انچارج اور متعلقہ اہلکاروں کے بیانات قلمبند کرکے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ پولیس نے ابتدائی رپورٹ میں واقعہ کو خودکشی قرار دیا ہے تاہم آئی جی پولیس احسن محبوب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی ہے اور متعلقہ حکام کو مختلف پہلوؤں پرتحقیقات کا حکم دیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے ایس ایس پی جہانزیب خان کاکڑ کی ناگہانی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے متعلقہ پولیس حکام کو ہدایت کی ہے کہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کرکے انہیں رپورٹ پیش کی جائے۔خبر جعفرآباد شہر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عمائدین کی بڑی تعداد بھی ایس ایس پی آفس اور سول اسپتال پہنچی۔ ان کے بھائی بھی کوئٹہ سے جعفرآباد پہنچے۔ کوئٹہ کے علاقے ہنہ سے تعلق رکھنے والے جہانزیب خان کاکڑ پولیس سروسز گروپ کے گریڈ اٹھارہ کے انتہائی قابل آفیسر تھے۔ اس سے قبل وہ پنجاب پولیس میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ تین ماہ پہلے ان کی خدمات بلوچستان حکومت کے حوالے کی گئیں جس کے ایک ماہ بعد انہیں ایس ایس پی جعفرآباد کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔جہانزیب کاکڑ کی شادی چند سال قبل ایف آئی اے پنجاب کے اعلیٰ افسر کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ انہوں نے سوگواروں میں اہلیہ اور چار سالہ بیٹی کو چھوڑا ہے جو ان کے ساتھ ایس ایس پی ہاؤس جعفرآباد میں رہائش پذیر تھیں۔
ایس ایس پی پولیس جہانزیب کاکڑ کا قتل معمہ بن گیا
وقتِ اشاعت : May 16 – 2016