|

وقتِ اشاعت :   18 hours پہلے

ایران اسرائیل جنگ میں شدت آرہی ہے ۔
دنیا کے بیشتر ممالک کی جانب سے سیز فائر اور خطے میں قیام امن کیلئے زور دیا جارہا ہے مگر دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے دفاعی نظام اور معیشت کو نقصان پہنچانے کیلئے میزائلوں سے حملے جاری ہیں ۔ ایران نے اسرائیلی حملے بند کرنے کے بعد ہی بات چیت پر آمادگی ظاہر کی ہے ،ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیلی حملے جاری رہینگے ایران اس کا بھرپور جواب دے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کیلئے ڈیل کرانے کی بات کی ہے مگر اسرائیل کسی بھی ڈیل پر رضا مند دکھائی نہیں دے رہا اور اپنے اہداف کے حصول کیلئے جارحانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے جس میں امریکہ سمیت دیگر ممالک کی جانب سے اسرائیل کی حمایت نظر آرہی ہے جس کی واضح مثال جی سیون اجلاس کا اعلامیہ ہے۔
گزشتہ روز کینیڈا میں ہونے والی سمٹ میں جی 7 ممالک نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔
جی 7 ممالک کے بیان میں اسرائیل کی حمایت اور ایران کو عدم استحکام کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
جی 7 مشترکہ بیان میں مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر کشیدگی میں کمی، ایران کے بحران کے حل اور غزہ میں بھی جنگ بندی پر زور دیاگیا ہے۔
جی 7 ممالک کے مشترکہ بیان میں شہریوں کے تحفظ کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
جی 7 ممالک نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہمیشہ سے واضح ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرسکتا اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے جی 7 ممالک کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے انکار کردیا ہے جس کے مسودے میں اسرائیل ایران کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
جی 7 میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔
دوسری جانب پاکستان سمیت 21 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی جانب سے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی گئی ہے اور اسے یو این چارٹر اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیاہے۔
مشترکہ اعلامیے میں علاقائی خودمختاری، سالمیت اور ہمسائیگی کے اصولوں کے احترام پر زور اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے خاتمے اور جنگ بندی کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اعلامیے میں ایرانی جوہری پروگرام پر پائیدار معاہدے کے لیے مذاکرات کی بحالی کو واحد راستہ قرا ر دیا گیا ہے۔
بہرحال اس وقت اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگکو روکنے میں امریکہ کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی جب تک کہ اسرائیل بھاری نقصان اور دفاعی نظام کے بڑے نقصان کے باعث خود پیچھے نہیں ہٹے گا امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتیں جنگ بندی کیلئے براہ راست مداخلت نہیں کرینگی جو کہ ان کی نیت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں ۔
جس طرح غزہ میں اسرائیل کے حملوں میں کوئی کمی نہیں آرہی اور وہ کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہر طرح کے ہتھیار استعمال کررہا ہے ۔
بظاہر لگتا ہے کہ اسرائیل سمیت بعض دیگر ممالک ایران کے جوہری پروگرام کو جواز بناکر ایران میں اندرون خانہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں جس طرح عراق، شام سمیت دیگر مسلم ممالک میں ماضی میں کیا گیا مگر ایران ایک طاقتور ملک ہے اوراس کی دفاع بھی بہت مضبوط ہے جس کی واضح مثال اسرائیل پر ایران کے میزائلوں کے تابڑ توڑ حملے ہیں جن سے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑرہا ہے ۔
بہرحال یہ جنگ نہ روکی گئی تو عالمی جنگ کے امکانات بڑھ جائینگے جس سے بڑے پیمانے پر انسانی بحران پیدا ہوگا اور اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *