گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے بجٹ کے سلسلے میں وفاقی حکومت کے ایک اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور وفاقی حکومت خصوصاً وزیر منصوبہ بندی اور ترقیاتی کے طرز عمل پر احتجاج کیا ۔ اب اسکا اثر یہ ہوگا کہ وفاقی حکومت یا منصوبہ بندی کمیشن چند ایک غیر اہم منصوبے بجٹ میں شامل کرے گی اور لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے گا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطالبات تسلیم کیے گئے اور ان کی مرضی کے مطابق بجٹ میں اضافہ کیا گیا۔ ہم ان کالموں میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ مرکزی حکومت کی نظر میں بلوچستان ایک وفاقی اکائی نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کی ایک تحصیل سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں ہے ۔ عارضی طورپر نوکری شاہی بجٹ میں کئی ایک ارب روپے کا اضافہ کرے گی اور آخر وقت میں ان پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ اس وقت تک نئے انتخابات ہوں گے اور نئی حکومت آئے گی ۔وفاقی نوکر شاہی کے لئے دو سال کوئی مسئلہ نہیں ہے ادھر اسکیموں پر فنڈ کی فراہمی روک دی جائے گی ان کی بلا سے کہ ان کی لاگت میں اضافہ ہو جیسا کہ کچھی کینال کی لاگت میں صرف ستر ارب روپے کااضافہ ہوا ہے ۔ جو کچھ تعمیر ہوا ہے وہ غیر معیاری ہے اور نوکر ہی شاہی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ روایتاً وفاقی حکومت بلوچستان میں سالانہ ترقیاتی پروگرام پر چالیس ارب روپے سے لے کر پچاس ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بناتی ہے ۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت وہ ترقیاتی اخراجات پر کٹ لگاتی ہے ۔ اوربہت تاخیر سے مالی سال کے آخرمیں مرکزی وزارت خزانہ فنڈز فراہم کرتی ہے اس سے ایک تو منصوبے وقت پر مکمل نہیں ہوتے اور دوسری جانب اس فنڈ کو لیپس ہونے سے بچانے کے لیے صرف کاغذوں میں اس فنڈکو خرچ ظاہر کیا جاتا ہے، اس طرح کرپشن کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس لئے بلوچستان کے بڑے بڑے منصوبے تیس سالوں سے پہلے مکمل نہیں ہوتے۔ ان میں آر سی ڈی ہائی وے 55سالوں بعد بھی نا مکمل ہے بولان میڈیکل کالج کی تعمیر پر 32سال لگے ۔ پٹ فیڈر چالیس سالوں بعد بھی مکمل نہیں ہوا بلکہ کچھی کینال بیس سال بعد بھی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں ہے گوکہ اس کی لاگت میں ستر ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے ۔ اس طرح گوادر بندر گاہ پر مزید تعمیر روک دی گئی ۔ 2006ء میں پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اس پر کچھ بھی خرچ نہیں ہوا۔یہ وفاقی حکومت کا احسان ہے کہ گوادر پورٹ منصوبہ کو مکمل کرنے کے بعد مسمار نہیں کیا ۔ گوادر میں ائیر پورٹ کی تعمیر کا کام اسی وقت شروع ہونا تھا جب چینیوں نے بندر گاہ پر تعمیر کاکام شروع کیا تھا آج دن تک گوادر ائیر پورٹ پر کام شروع نہیں ہوا ۔ اب چینی سرمایہ کار آرہے ہیں اور امید ہے کہ وہ کام شروع کرنے کے تین سال کے اندر اندرگوادر ائیر پورٹ مکمل کر لیں گے۔ جہاں تک گوادر پورٹ کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ ہے اس پر کوئی کام نہیں ہوا، اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی شاید گوادر پورٹ منصوبہ کو مکمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔
گوادر بندر گاہ کا تعلق بقیہ پاکستان سے نہیں ہے یہ بندر گاہ مغربی ایشیاء میں واقع ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف افغانستان اور دوسرے وسط ایشیائی ممالک کو راہداری کی سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ کراچی اور پورٹ قاسم پاکستان کی تمام ضروریات کو اگلے سو سالوں تک پوری کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ گوادر اور چاہ بہار کی بندر گاہوں کا مقصد صرف اور صرف افغانستان اور وسط ایشیاء کے سولہ ممالک کو تجارت کی سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ ہم نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ گوادر کو ریل کے ذریعے کس مقام سے منسلک کریں۔ ادھر چاہ بہار میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں یہ وہی مکران کا ساحل ہے جو گوادر سے صرف 72کلو میٹر دور ہے اب تک اس بندر گاہ پر پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہورہی ہے ۔ اس میں المونیم کا پلانٹ ،کھاد کا کارخانہ ، دو بڑے اسٹیل مل جو 36لاکھ ٹن سالانہ پیدا وار دیں گے۔ جبکہ ہماری خارجہ اور معاشی پالیسی کی وجہ سے کسی ایک بھی ملک نے یہاں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا سوائے چین کے۔ چین کی زیادہ دلچسپی پنجاب میں ہے جہاں پر وہ 37ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔ آخر میں بجٹ میں جتنی بھی رقم بلوچستان کی ترقی کے لیے مختص ہوگی اس کا نصف استعمال نہیں ہوگا اور وہ سرمایہ واپس وفاق کے خزانے میں جائے گا صرف بیس ارب روپے بلوچستان پر خرچ ہوں گے ۔سرکار کے حامی سیاستدان گزشتہ کچھ دنوں سے 500ارب روپے کا ترقیاتی پیکج کا مطالبہ کرتے آئے ہیں لیکن حکمرانوں نے اس پر دھیان نہیں دیا اور اس کو نظر انداز کردیا ۔
بلوچستان، وفاقی بجٹ سے توقعات نہ رکھیں
وقتِ اشاعت : May 31 – 2016