|

وقتِ اشاعت :   July 6 – 2016

ماہ رمضان کے روزوں کے بعد عیدالفطر منائی جارہی ہے ہمارا ملک غریب ہے بلوچستان جیسے صوبے میں ساٹھ فیصد سے زیادہ لوگ غریبی کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں۔ اکثر کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے حکومت ہے کہ اس کے بجٹ کا ایک فیصد حصہ بھی غریب لوگوں اور نادار طبقات تک نہیں پہنچتا بلکہ آج تک کسی حکومت نے یہ کوشش ہی نہیں کی کہ غربت کا مقابلہ کریں اور غربت دور کریں تاکہ عوام خوشحال ہو ۔ یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب حکومت صوبے کو ترقی دے اور لوگو ں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرے ۔ گزشتہ 35سالوں سے ایم پی اے ترقیاتی اسکیموں پر سینکڑوں ارب روپے خرچ ہوئے ‘ نہ صوبے میں کوئی ترقی نظر آئی اور نہ ہی لوگوں کو روزگار ملا خدا کا قہر ان لوگوں پر جنہوں نے ایران کی مدد سے چلنے والے دو بڑے کپڑے کے کارخانوں کو بند کردیا ۔ ان کی مشینری کوڑیوں کے دام اپنے من پسند لوگوں کو فروخت کردیا اور تقریباً بیس ہزار خاندانوں کو نان شبینہ سے محروم کردیا یہ کسی اور کا فیصلہ نہیں تھا یہ حکومت کا فیصلہ تھا کہ ان دونوں بڑے ملوں کو بند کیا جائے اور بیس ہزار خاندانوں کو فاقہ کشی پر مجبور کیا جائے۔ ایک حکومت رہ گئی ہے جو سال میں چند ہزار ملازمتیں فراہم کر سکتی ہے وزیراعظم جب کوئٹہ کے دورے پر آئے تو ان کے سامنے جھوٹ بولا گیا تھا کہ بلوچستان میں صرف ایک سال میں 21ہزار لوگوں کو روزگار فراہم کیا گیا۔ روزگار کہاں اور کس کو فراہم کیا گیا عوام کو تو چھوڑ دیں میڈیا بھی اس سے لا علم ہے ۔غرضیکہ ہمارے صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ غریبی ہے حکومت اس کے خاتمے میں دلچسپی ظاہر کرے اور ایم پی اے فنڈز روک کر صوبے بھر میں کارخانے اور فیکٹریاں لگائے۔ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کی گنجائش ہے اسی طرح مچھلی کو محفوظ بنانے اور اس کو برآمد کرنے کی گنجائش موجود ہے بلوچستان میں دو کروڑ ایکڑ زمین موجود ہے ہزاروں ڈیم بنا کر اس کو آباد کریں ۔ بلوچستان میں گلہ بانی کے زبردست وسائل موجودہیں ہم حج کے موقع پر لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں بھیڑ بکڑیاں سعودی عرب بر آمد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے پاس معدنیات موجود ہیں ہمارے پاس کھربوں ڈالر مالیت کا خام لوہا موجود ہے جس سے ہم کئی بڑے بڑے اسٹیل مل بناسکتے ہیں بحرحال غریبی کے مسئلے کو طویل منصوبے بندی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے ۔ موجودہ سالانہ ترقیاتی نظام اور ایم پی اے حضرات کو فنڈز دینا بند کرنا ہوگا پورے وسائل ترقیاتی اسکیموں پر خرچ کیے جائیں طاقتور حکمرانوں کی ذات پر خرچ نہ ہو تاکہ لوگ محتاج ‘غریب اور نادار نہ رہیں ۔ ہم ابتداء سے یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کی ترقی کے لئے سالانہ سینکڑوں ارب کی سرمایہ کاری درکار ہے ۔ وفاقی حکومت کو بلوچستان سے متعلق اپنا معاندانہ رویہ بدلنا ہوگا ملیں بند کرنے کے بجائے نئی نئی ملیں قائم کرنے ہوں گے ۔ا یک ملک کے اندر یہ نہیں ہوسکتا کہ آدھا پاکستان (بلوچستان ) پسماندہ اور نادار رہے اور بقیہ آدھا پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال ہو ۔ اس لئے پورے ملک کے لئے ایک متناسب ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد کرنا ہوگا تاکہ ملک یکساں ترقی کرے امید ہے کہ حکمران اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں گے اوربلوچستان کی تعمیر اور ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں گے تاکہ یہاں کے لوگ بھی آسودہ حال ہوجائیں ۔