|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2016

سابق صدر پاکستان اور فوج کے سابق سربراہ نے ایک بار پھر جمہوریت کے خلاف لب کشائی کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے لئے جمہوریت موزوں نہیں ہے اس کے لئے صرف اور صرف فوجی آمریت یا بادشاہت موزوں ہے۔ شاید سابق جنرل پرویز مشرف یہی کہنا چاہتے تھے اور وہ کہہ گئے۔ وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی اور عوام کے سیلاب نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اس لئے انہوں نے پہلے دن بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ کراچی کے بم حملے میں سینکڑوں پاکستانیوں کو شہید اور اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو زخمی کیا۔ وجہ یہ تھی کہ پرویز مشرف الیکشن کے دوران بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے خلاف تھے اور ان کی حکم عدولی ہوگئی اس لئے پرویز مشرف نے پہلے دن ہی یہ طے کیا تھا سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کے ساتھ ملک کے سابق وزیراعظم کو بھی بم کے دھماکے میں ہلاک کیا جائے۔ اس میں ناکامی کے بعد راولپنڈی کے جلسہ عام ختم ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو کو دوسرے حملے میں شہید کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کا صرف اور صر ف ایک دشمن تھا اوروہ ہیں پرویز مشرف ۔الیکشن کے دوران بے نظیر بھٹو نے یہ اعلان کیا تھا کہ ملک پر وزیراعظم کی حکمرانی ہوگی یعنی قانون کی حکمرانی ہوگی فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کا حکم نہیں چلے گا۔ اس لئے اسی تنازعہ کو وجہ قتل سمجھا جائے۔ بے نظیر کا اصلی قاتل پرویز مشرف ہے باقی دوسرے لوگ جنرل پرویز مشرف کے آلہ کار تھے اوروہ ان کی حکم عدولی نہیں کرسکتے تھے۔ اسی طرح سے نواب اکبر بگٹی کے بھی قاتل پرویز مشرف ہیں۔ بگٹی کی کسی بھی پاکستانی سے دشمنی نہیں تھی۔ نواب بگٹی ایک انتہائی خود دار انسان تھے اور پرویز مشرف ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔سوائے فوج کی نوکری کے ان کو ملک کے اندر کوئی نہیں جانتا تھا اور فوج کی طاقت پر اس نے اقتدار پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا۔ وہ چاہتے تھے ملک کے دیگر سیاستدانوں کی طرح نواب بگٹی اور دوسرے بڑے بلوچ رہنما ان کی چاپلوسی کریں۔ ان کے دربار میں پیش ہوں اور ان سے درخواست کریں۔ جب یہ سب کچھ نہ ہوسکا تو انہوں نے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ 2002ء میں بھارتی افواج سے فراغت پانے کے بعد انہوں نے بلوچستان کے معاملات میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا۔ ایک فوجی معرکہ میں نواب بگٹی کو جنرل پرویز مشرف کے حکم کے تحت حملہ کرکے شہید کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف سے کم درجے کا افسر اس قسم کی کارروائی کی جرات نہیں کرسکتا۔ فاشسٹ طرز حکمرانی کو عوام نے مسترد کردیا۔ پہلے ان کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے ہٹادیا گیا اور بعد میں صدارت سے سبکدوش کرکے ملک بدر کردیا گیا۔ وجہ۔۔۔ وہ پورے پاکستان اور ملک کے اداروں کے لئے ایک ناپسندیدہ شخص بن گئے تھے۔ واپس آنے کے بعد ان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ پاکستان کے عوام ان سے کتنی نفرت کرتی ہے۔ وہ پہلے ایک ہوٹل کے اندر بعد میں گھر میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ جب ان پر غداری کا مقدمہ قائم ہوا اور عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو ان کو یقین آگیا کہ غداری کے مجرم ہیں اور ان کو پھانسی تک کی سزا ہوسکتی ہے اسی لئے بیماری کا بہانہ بناکر وہ ملک سے دوبارہ فرار ہوگئے۔ قانونی کارروائی کے خوف سے اب وہ دوبارہ ملک واپس نہیں آرہے۔ باہر رہ کر وہ فضول بیانات اور انٹرویو دیتے رہیں گے تاکہ ان کے دل کی تشفی ہوکہ وہ پاکستان کے ایک سابق حکمران تھے۔ ان کا پاکستان کے عوام اور ملک کے تمام قومی اداروں سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ پاکستان کے سیاسی تاریخ سے آگاہ ہیں کہ پاکستان ایک وفاق ہے اور یہ رضاکارانہ وفاق ہے جہاں پر آمریت، خصوصاً شخصی یا فوجی آمریت کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں صرف اور صرف پارلیمانی جمہوریت ہی کام کرسکتا ہے۔