اسلام آباد: سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس کیس میں وزرات داخلہ نے کوئٹہ کمیشن سے متعلق اپنے اعتراضات تیار کر لیے ہیں اور آج ہفتہ کو سپریم کورٹ میں جمع کرائے جائیں گے، وزرات داخلہ کی جانب سے تیار کیے گئے اعتراضات کے مطابق کمیشن کی وزیر داخلہ،وزارت داخلہ کے خلاف آبزرویشن غیر ضروری اور انصاف کے تقاضوں کے منافے ہے،اور حقائق کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا ہے،حقائق کا پتہ چلائے بغیر آبزرویشن دی گئیں، تیار کردہ مجوزہ اعتراضات میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں 7522 160انفارمیشن بیس اور ایک لاکھ 52 ہزار سے زیادہ کومبنگ آپریشن کیے گئے،جن کے نتیجے میں 5 ہزار چھ سو گیارہ دہشت گرد گرفتار ہو ئے،جبکہ آپریشن میں 1865 دہشت گرد ہلاک ہوئے،رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2014 کے بعد دہشت گردی کیواقعات میں کمی آئیں، 2009 میں دہشت گردی کے 1938 واقعات جبکہ 2016 میں 769 واقعات ہوئے ہیں، جبکہ آرمی پبلک سکول،واہگہ بارڈر سمیت متعدد واقعات سے بہت پہلے سیکورٹی الرٹ جاری کیے گئے،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیکٹا کا بجٹ بڑھا کر 1.56 ارب روپے کر دیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں شناختی کی تصدیق کو عمل شروع کیا گیا اور 95959 شناختی کارڈ منسوخ،چار لاکھ 50 ہزار شناختی کارڈ کو عارضی طور پر بلاک کیا گیا ہے، اور ایگزیکٹ کنڑول لسٹ کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ میں وی آئی پی کلچر کو ختم کرتے ہوئے 775 سرکاری افسران کو فارغ کیا گیا، وزرات داخلہ کی رپورٹ میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی کے لیے تین ماہ کا عرصہ درکار ہو تا ہے، جماعت احرار پر پابندی کی درخواست 16 اگست کو کی گئی 11 نومبر کو جماعت احرار کو کالعدم تنظیموں میں شامل کر دیا گیا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 21 اکتوبر کو وزیر داخلہ نے دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے ملاقات کی، دفاع پاکستان کونسل کالعدم تنظیم نہیں ہے ،دفاع پاکستان کونسل کے ساتھ مولانا احمد لدھیانوی کی آمد سے وزیر داخلہ بے خبر تھے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2009میں1938 جبکہ 2013 میں 1576 دہشت گردی کے واقعات ہوے، 2013 میں جنگجووں سے باقاعدہ مذاکرات کا آغاز کیا گیا،مذاکرات کے دوران احساس ہوا کہ جنگجو حکومت سے ڈبل گیم کر رہے ہیں 12جون 2014کو وزیر اعظم کے زیر صدارت اجلاس میں آ پریشن کا فیصلہ کیا گیا اور ملٹری آپریشنز سے پہلے شہریوں کی تحفظ کیلئے عملی اقدمات کیے گئے فوج نے شہروں کے تحفظ کیلئے 20 ہزار جوان دیئے، اعتراضات میں مزید کہا گیا ہے کہ کھلی عدالت میں اعترا ضات کے باوجود وزارت داخلہ کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا، مزید ریکارڈملنے پر اپنے اعترا ضات دائیر کرنے کا حق رکھتے ہیں، وزارت داخلہ کے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ وزرات داخلہ اور وزیر داخلہ کیخلاف کمیشن کی آبزرویشن غیر ضروری اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں، بے بنیاد ابزرویش حذف کیے جائیں ۔