|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2013

imagesاسلام آباد(آن لائن) پاک افغان اراکین پارلیمان نے آئندہ برس افغانستان سے امریکی و ایساف افواج کے انخلا ء کے تناظر میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان موجود غلط فہمیوں اور اعتماد کے فقدان کو دور کرنے، ما ضی کی غلطیوں کو نہ دوھرانے ، اعتماد سازی کے لئے اقدامات کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے ہو ءئے کہا ہے کہ اس سے جنوبی ایشیا میں امن کے فروغ کے لئے حالات کو سازگار بنانے میں مدد ملے گی ۔جمعہ کے روز یہاں ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ پاکستان ۔افغانستان کانفرنس، افغانستان سے ایساف افواج کے انخلاء اور امن اور تعاون کے لئے با ہمی شراکت داری کے حوالے سے منعقدہ دو روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے دونو ں ممالک کے اراکین پارلیمان نے دونوں ممالک کو قریب لانے اور مل کر مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے،دو روزہ کانفرنس کا نعقاد ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسو سی ایشن (سیفما) نے کیا تھا جس میں دونو ں ممالک کے سابقہ و موجودہ اراکین پارلیمان کے علاوہ اہم شخصیات نے شرکت کی۔ وزیر اعلی بلوچستان ڈاکتر عبدلمالک بلوچ نے افغانستان نے امریکی و ایساف افواج کے فوری انخلاء کو ایک غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے مین عسکریت پسند قوتوں اور دھشتگردون کو دوبارہ سر اُٹھانے کا مو قع ملے گا اور وہ منظم ہو کر دوبارہ کابل کے کلاف فو ج کُشی کر سکتی ہیں۔ جس سے صورتحال کے مزید کئی دھا ئیوں تک ابتر رہنے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اُنہوں نے کہا کہ امریکی و ایساف افواج کے مرحلہ وار انخلاء سے افغان سیکیورٹی فورسز کو اتنی دیر میں منظم ہو کر اپنے کندھوں پر مکمل طور پر ذمہ داری اُٹھا نے کے لئے تیار ہو نے کا مو قع مل جا ئے گا۔وزیر اعلی بلو چستان نے زور دیا کہ خطے میں امن کے قیام اور عوام کی خو شحالی کے لئے ضروری ہے کہ کئی دھا ئیوں تک جا ری رہنے والی ما ضی کی غلط جہادی و عسکریت پسندانہ پالیسیوں پر نظر ثانی کی جا ئے اور ان کو دوبارہ نہ دوھرایا جا ئے۔ ’’خدا نخواستہ اگر عسکریت پسند قوتین دوبارہ منظم ہو کر کا بل پر قا بض ہو گئیں تو آئیندہ کئی دہائیوں تک خطہ اس سے متاثر رہ سکتا ہے،‘‘ وزیر اعلی بلو چستان نے مزید اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ سینٹ کی قا ئمہ کمیٹی برائے دفاع کے چئیر مین اور پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) کے راہنماء مشاہد حسین سید نے دونو ں ممالک کے درمیا ن اس قسم کے دوستانہ مباحثوں اور رابطوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا اس کے دونوں ممالک کے درمیان پالیسی امور کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اُنہوں نے واضح کیا کہ اب افغانستان سے اپنے پانچویں صوبے کی حیثیت میں سلوک روا رکھنے اور اس کو اپنی سٹریجیٹک ڈیپتھ قرار دینے کی پالیسی اب فرسودہ ہو چکی ہے اور اس کو خدا حافظ کہا جا چکا ہے۔ مُشاہد حسین سید نے واضح کیا کہ نئی علاقائی شناخت اور حیثیت کا نظریہ خطے میں امن کے فروغ اور یہاں کے عوام کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن، اسلام آباد اور کابل کے درمیان افغانستان کے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے ایک غیر سرکاری و غیر روایتی مفاہمت مو جود ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) کے راہنماء نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ مستقبل میں افغانستان کو اس خطے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ پراکسی جنگ اور چین کے اثر و نفوذ کو محدود کرنے کی کو شیشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی اثرات جیسے چیلنجیز درپیش ہو سکتے ہیں، تا ہم اس ضمن میں جنوبی ایشیائی ممالک کی جانب سے ما ضی میں کی گئی غلطیوں ااور کو ہ تائیوں کو نہیں دوہرایا جا نا چا ئیے۔ افغانستان کے سابق وزیر اطلا عات عبدلحمیدمُباریز نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور پاکستان میں ایک طاقتور نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان گذشتہ دنوں ہو نیوالی ملا قا توں کو خوش آئیند قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کافروغ امن کی کو شیشوں میں اہم ثابت ہو سکتا ہے۔’’افغانستان اب مزید ما ضی کا افغانستان نہیں رہا اور آج کی افغان نسل ماضی سے قدرے مختلف ہے جو کہ امن کی خواہشمند ہے اور مزید خون خرابے کی مخالف ہے۔معروف سکالر احمد رشید نے زور دیا کہ ملک سے عسکریت پسندی اور دھشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کے قبا ئلی علاقہ جات کو قومی دھارے میں شامل کیا جا نا چاہئے، وگرنہ مستقبل میں بھی طالبان یا اس جیسی عسکریت پسند تحریکیں اُبھرتی رہیں گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے راہنماء شفقت محمود نے دونو ں ممالک کو با ہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہو ئے کہا ک دونو ں ممالک میں جمہوریت مظبوط ہو ئی ہے جس کے با عث اعتماد کی فضا پنپ رہی ہے ، افغانستان میں بیرونی مداخلت اور دونو ں ممالک میں ڈرون حملے دونوں ممالک میں جہادیوں اور عسکریت پسندوں کے آنے کا پیش خیمہ ثابت ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تما م سیاسی جماعتیں مزاکرات کے ذریعے مسا ئل کا حل ڈھونڈنے کے حوالے سے یک زُبان ہیں۔ رپکن قومی اسمبلی اسد عُمر نے کہا کہ ڈرون حملوں کا سلسلہ اب رکنا چا ہیے، اور جنوبی ایشیا ء بالخصوص پاکستان اور افغانستان نے درمیا ن مضبوط اقتصادی تعلقات کا قیا م عمل مین لا یا جا نا چا ہئے جس میں دونوں ممالک کی بھلا ئی ہے اور تمام ممالک کے درمیان جا ری مخاصمتوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ ’’ کسی کو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہئے تاہم اسی طرح پاکستان کی سر زمین بھی کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینی چائیے جس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی فضا بہتر بنانے میں مدد ملے گی تعاون کو فروغ حاصل ہو گا۔ ۔اس مو قع پر خطاب کرتے ہو ئے عوامی نیشنل پارٹی کے راہنماء حاجی عدیل احمد نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کا ذکر کرتے ہو ئے دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے کردار کی تعریف کیاور دونوں ممالک کے درمیاں تجارت کو بڑھانے کی ذرورت پر زور دیا۔پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے راہنماء جعفر اقبال نے کہا کہ فغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک پر نا قابل نظر انداز اثرات مرتب ہوں گے جس کا گہرا جا ئزہ لینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے وصیلی جرگہ کے سابقہ سیکریٹری جنرل غلام حسن گراں نے اسلام آباد پر کابل میں جا ری قیام امن کے عمل کو سپورٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیا اورکہا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کو تعلیم، توانائی، کانکنی، تحقیق، اقتصادی اور تعمیرات کے شعبے میں تعلقات کو فروغ دینا چاہئیے۔ کابل یونیورسٹی کے غلام جیلانی آریز نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام میں مذہب، لباس، ثقافت، لباس اور لسانیات میں بہت سی اقدار مشترک ہیں جو کہ دونوں ممالک کو اتحاد کی جانب لے کر جا سکتی ہیں۔ٓآزارا خاش حافظی، چئیر مین افغانستان چیمبر آف کامرس نے مطلع کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ چند برسوں میں تجارت کا حجم دُگنا ہوا ہے جو کہ مثبت پیمانہ ہے۔افغانستان اپنے ہمسایوں اور اس کے ہمسائے اس کی وجہ سے مضبوط ہیں۔ قبل ازیں کانفرنس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے سیفما کے سیکریٹری جنرل امتیاز عالم نے کہا کہ آئیندہ برس پاکستان اور افغانستان دونو ں ممالک کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ خجے سے امریکی و ایساف افواج کا انخلاء ہو رہا ہے اور سیکیورٹی کی تمام ذمہ داری افغان سیکیورٹی فورسز اپنے کندھوں پر لے لیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ با ہم گفت و شنید سے ایسے طریقہ کار کو واضح کیا جا ئے کہ جس سے خطے میں پا ئیدار امن کا قیام یقینی بنایا جا سکے، وگرنہ غیرمعتدل اور شدت پسندی اس خطے کودوبارہ اپنی گرفت میں لے لیں گی۔