بلوچستان میں 2017ء میں تین سو سے زائد دہشتگرد حملوں میں مجموعی طور پر 264افراد جاں بحق اور 573 افراد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے 110 اہلکار بھی شامل ہیں جن پر مجموعی طور پر 95 حملے کئے گئے۔
ان میں 205 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔دہشتگردی اور سبوتاژکے واقعات میں گزشتہ سال کی نسبت 2017ء میں 9 فیصد اضافہ تاہم ان واقعات میں ہلاکتوں میں20 فیصد تک کمی آئی۔آباد کاروں اور ہزارہ برادری پر حملوں میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوا۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے جون کے پہلے چھ ماہ میں بلوچستان میں102دہشتگرد حملوں میں 98 افراد جاں بحق اور 179 افراد زخمی ہوئے جبکہ جولائی سے پچیس دسمبر تک 109دہشتگرد حملوں میں 166 افراد جاں بحق اور 394 افراد زخمی ہوئے۔ سال کے پہلے ششماہی کے مقابلے میں آخری ششماہی کے دوران صوبے میں دہشتگردی کے واقعات میں ہلاکتوں میں 69فیصد تک اضافہ ہوا۔ ایک ماہ میں سب سے زیادہ 48 دہشتگردی کے واقعات اگست میں پیش آئے جن میں 28افراد جاں بحق اور55 زخمی ہوئے جبکہ سب سے زیادہ 40 ہلاکتیں اکتوبر کے مہینے میں ہوئیں۔
اس کے بعد مئی،نومبر،جون،اگست اور دسمبر میں بالترتیب 39، 38 ،28، 28 اور23 افراد دہشتگرد حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر 95 حملے کئے گئے جن میں 110اہلکار شہید اور205 زخمی ہوئے۔ 2016ء میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر104 حملوں میں 167 اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔
اس طرح گزشتہ سال کی نسبت رواں سال قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کی شہادت میں 34فیصد تک کمی آئی ۔ 2017ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ 63 حملے ایف سی پر ہوئے جن میں 27ایف سی اہلکار جاں بحق اور 83زخمی ہوئے۔ایف سی پنجگور رائفلز کے لیفٹیننٹ کرنل بھی فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہوئے جبکہ پولیس پر 18 حملے ہوئے جن میں 52 پولیس اہلکار جان سے گئے۔ 83 اہلکار زخمی ہوئے۔
سب سے زیادہ 21 اہلکاروں کی شہادت جون میں دو دہشتگرد حملوں میں ہوئی۔اس سال بلوچستان میں ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکشن حامد شکیل، ایس ایس پی قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمند، ایس پی قائد آباد کوئٹہ مبارک شاہ، ایس پی انویسٹی گیشن سٹی کوئٹہ محمد الیاس ،ڈی ایس پی عمر الرحمان، سی ٹی ڈی انسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی سمیت اعلیٰ پولیس آفیسران بھی دہشتگردی کا نشانہ بنے۔
علاوہ ازیں پاک فوج پر چار دہشتگرد حملے ہوئے جن میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت 19اہلکار شہید اور 35 زخمی ہوئے۔ اسی طرح دس حملوں میں لیویز کے 12 اہلکارشہید اور6زخمی ہوئے۔ کوسٹ گارڈ پر اس سال کوئی حملہ نہیں ہوا۔گزشتہ سال کی نسبت2017ء میں پولیس اہلکاروں کی شہادت میں 58فیصد تک کمی آئی ۔ اس سال ایف سی اہلکاروں کی شہادت میں بھی 12فیصد تک کمی آئی ۔
رواں سال آبادکاروں پرحملوں کے پانچ واقعات پیش آئے جن میں7افراد جاں بحق اور10زخمی ہوئے جبکہ اس سال ہزارہ قبیلے کے افراد پر 8 حملے ہوئے جن میں 15 افراد جاں بحق ،15 زخمی ہوئے۔ سال 2013ء کی نسبت سال 2017ء میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں 93فیصد کمی آئی۔
2013ء میں خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہزارہ قبیلے کے 231افراد جاں بحق اور 445زخمی ہوئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں9 خودکش حملوں سمیت 37 بم دھماکے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 54 افراد جاں بحق اور 164 زخمی ہوئے۔ اس طرح دیسی ساختہ بم دھماکوں میں 2015ء کی نسبت 37فیصد تک کمی آئی ہے۔
2015ء میں 162 بم دھماکے ہوئے تھے۔ 2013ء میں یہ تعداد 435 اور 2009ء میں 582تھی۔محکمہ داخلہ کے مطابق رواں سال بارودی سرنگ دھماکوں کے 67 واقعات میں 18 افراد جاں بحق اور 109 افراد زخمی ہوئے۔ دستی بم کے 30 حملوں میں 2 افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہوئے۔ مختلف شہروں میں سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹو ں اور شہری آبادیوں پر38 راکٹ بھی داغے گئے جن میں ایک شخص جاں بحق اور 9افراد زخمی ہوئے۔
سڑک کنارے نصب 8 بم دھماکوں میں 4 افراد جاں بحق اور7افراد زخمی ہوئے۔ دہشتگردی کے دیگر 8 واقعات میں 48 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے۔ ان میں مسیحی برادری کے چرچ پر حملے میں جاں بحق ہونیوالے 9 افراد اور تربت میں کالعدم تنظیم کے ہاتھوں قتل ہونیوالے 20 افراد بھی شامل ہیں۔
رواں سال بلوچستان میں 9 خودکش حملے ہوئے جن میں چھ حملے کوئٹہ میں ہوئے ،تین خودکش حملے چمن میں ایس ایس پی ساجد مہمند،جھل مگسی میں درگاہ فتح پور اور مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر ہوئے۔ بلوچستان میں 2013ء سے لیکر 2017ء کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں 50فیصد تک کمی آئی ہے۔
بلوچستان میں حالات کی سنگینی 2002ء سے شروع ہوئی جس کے بعد 2008ء کے دوران واقعات میں مزید اضافہ ہوتا گیا اور انتہائی گھمبیر صورتحال پیدا ہوگئی ۔ 2013ء سے 2017ء تک بلوچستان میں حکومت وسیکیورٹی فورسز کے مشترکہ حکمت عملی نے بلوچستان کے حالات کو بدل کررکھ دیا اور امن وامان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی خاص کر خود کش حملے،بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔
ماضی کی نسبت آج بلوچستان میں صورتحال بدل چکی ہے۔ موجودہ سال کو بلوچستان میں بہتری کا سال سمجھا جاتا ہے یقیناًاس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ رواں سال کے دوران پولیس آفیسران کو خاص کر نشانہ بنایاگیا جس میں اہم شہادتیں ہوئیں ۔بہرحال سیکیورٹی کی بہترین حکمت عملی نے ایک بار پھر حالات کو بہتری کی جانب گامزن کردیا ہے۔