|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2013

imagesاسلام آباد(آن لائن) وفاقی حکومت اور آئی جی ایف سی سمیت بلوچستان حکام 35لاپتہ افراد کو بازیاب کرا کر سپریم کورٹ میں پیش نہ کرسکے جبکہ عدالتی حکم پر قائم مقام آئی جی ایف سی خالد سلیم عدالت میں پیش ہوگئے اور موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر ختم کیا جائے کہ تمام لاپتہ افراد ایف سی نے اٹھائے ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ وہ عملی طور پر اس کو ثابت کرین،آئی جی ایف سی نے بیان دیا کہ اغواء میں مبینہ ملوث ایف سی کے 9 افسران میں سے ایک نان کمیشنڈ افسر اللہ بخش کی شناخت ہوگئی ہے جنہوں نے ضمانت قبل ازگرفتاری کرالی ہے جبکہ پانچ سے چھ دیگر افسران کی شناخت آخری مرحلے میں ہیں کچھ آرمی کے افسران تھے جو واپس جا چکے ہیں ان کے حوالے سے پاک فوج کو خط لکھ دیا ہے۔ ایف سی اپنا کام کررہی ہے جلد نتائج دینگے جبکہ عدالت نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے پیش ، ڈاکٹروں سمیت تمام طبقات کو فول پروف سکیورٹی فراہم ، ڈاکٹروں کو قانون کے مطابق اسلحہ لائسنس جاری ، ایف سی افسران کو ڈی آئی جی سی آئی ڈی کے روبرو پیش کرکے چھبیس دسمبر تک رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریمارکس دیئے کہ ایف سی ریاست کا ادارہ ہے اور ریاست انصاف کی علامت ہے ہم نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا حکم دیا ہے آپ کا فرض ہے کہ اس پر عمل ہونا چاہیے آپ سچ بولیں تو آپ کو کسی وکیل کی بھی ضرورت نہیں رہے گی آپ کی وردی تحفظ کی علامت ہونی چاہیے بدقسمتی کی بات ہے کہ لوگ آپ پر اغواء کا الزام لگا رہے ہیں، بلوچستان میں امن لانے کے لیے عام لوگوں کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اغواء کاروں اور ملزمان کے نام اور تمام تر شواہد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دینا ہی پڑینگے،عام لوگو ں کی طرح پولیس حکام کی بھی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم نہیں کرینگے تو ملزمان کے نام کیسے دینگے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اور ایف سی ڈاکٹروں کو مناسب سکیورٹی فراہم کرے تو یہ اغواء ہی نہیں ہونگے اغواء میں ملوث افراد کو گرفتار تو کیا جاتا ہے مجسٹریٹ کے سامنے بیان نہیں دلوائے جاتے ایک ڈاکٹر تو اغواء کاروں کو جانتا ہے حیرت ہے پولیس اور ایف سی والے نہیں جانتے ، اگر ایف سی لوگوں کو لاپتہ نہیں کرتی تو وہ یہ اپنے کردار سے ثابت کرے ،جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر بلوچستان میں امن کا قیام ممکن نہیں، اغواء کا مسئلہ جڑ سے ختم کرنے کیلئے گواہوں کو تحفظ فراہم کرنا پڑے گا ۔ انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک بطور اٹارنی جنرل مقدمے سے علیحدہ ہوگئے وہ اب عدالتی معاون کے طور پر پیش ہوں گے جبکہ اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے شاہ خاور عدالت میں پیش ہوں گے عدالت نے ان کی تاریخ کی سماعت پر آئی جی پولیس ، سیکرٹری داخلہ بلوچستان اور قائم مقام آئی جی ایف سی کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آئی جی ایف سی توہین عدالت کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر ، قائم مقام آئی جی ایف سی سمیت دیگر حکام پیش ہوئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ میرا عہدہ تو اٹارنی جنرل کا ہے مگر آج میں عدالتی معاون کے طور پر پیش ہورہا ہوں اس لئے اٹارنی جنرل کے طور پر پیش نہیں ہوسکتا ممکن ہے کہ آئی جی ایف سی کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو تو میں اس پر پراسکیوٹر ہوتا ہوں شاہ خاور اس کیس میں پیش ہوں گے ۔ آئی جی ایف سی کو توہین عدالت کو نوٹس جاری کیا گیا تھا جس پر حکام نے میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیا ہے وہ ابھی تک علیل ہونے کی وجہ سے رخصت پر ہیں قائم مقام کے تقرر کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا ان کی جانب سے عرفان قادر نے پیش ہونا تھا عرفان قادر کے حوالے سے اے او آر نے کچھ بتانے کی کوشش کی تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم حاضرین میں سے کسی اور کو ان کی جگہ پیش ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ منیر اے ملک نے بتایا کہ قائم مقام یہاں موجود ہیں عدالتی طلبی پر وہ پیش ہوجائینگے ،شاہ خاور نے آئی جی ایف سی کی رخصت اور قائم مقام کی تقرری کے حوالے سے جاری نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کردیئے جس کا عدالت نے جائزہ لیا۔ شاہ خاور نے بتایا کہ آئی جی ایف سی ابھی تک نہیں آسکے ہیں عدالت ان کی موجودگی کو مفروضہ کے طور پر قبول کر لے، عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ شاہ خاور نے بریگیڈئر خالد نسیم کی قائم مقام آئی جی ایف سی تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کیا ہے اس سے قبل عدالت نے ان کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا وہ نہیں آسکے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ وہ کچھ دیر میں آجائیں گے ،آئی جی بلوچستان سمیت دیگر حکام کی حاضری لگائی جائے،دوران سماعت چیف سیکرٹری بلوچستان نے رپورٹ پیش کرنے کی اجازت طلب کی ہے جس کی اجازت دی جاتی ہے۔ سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ ہم نے ڈاکٹر منیر اور ڈاکٹر احمد کے اغواء میں ملوث پانح اغواء کار گرفتار کئے ہیں۔آئی جی نے بتایا کہ ہم نے گینگ پکڑا ہے 164 کے بیانات بھی ریکارڈ کرنے ہیں۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ اس کو مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ نہیں کرائینگے؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈاکٹروں کو تحفظ نہیں دیتے اس لئے وہ اغواء کاروں کے خلاف ثبوت نہیں دیتے ۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ اگر آپ صحیح سکیورٹی دیں تو یہ ڈاکٹرز اغواء ہی نہ ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ڈاکٹروں کو ذاتی سکیورٹی کیوں نہیں فراہم کرتے ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اگر آپ اغواء کاروں کو گرفتار نہیں کرینگے تو ان کا مسئلہ کیسے حل ہوں گے یہ مسئلہ اسی طرح جاری رہے گا اس مسئلے کو جڑ سے ختم کریں ہم اس حوالے سے حکم جاری کرینگے، اغواء کاروں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اکبر کانسی نامی شخص کو ان کے قافلے سے اٹھایا گیا اس کے لیے ایک ارب روپے تاوان مانگا جارہا ہے،عدالت نے کہا کہ کتنے ڈاکٹرز ہیں دوہزار کے قریب ہوں گے تین سے چار ہزار ڈاکٹروں کو گارڈز دینا ہوں گے ۔ چیف سیکرٹری کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ ہم کسی کو انفرادی طور پر سکیورٹی نہیں دے سکتے، ان ڈاکٹروں کی بڑی تعداد ہے پھر وکلاء بھی اغواء ہوتے ہیں دوسرے لوگوں کا بھی مسئلہ ہے ان کو ذاتی سکیورٹی دیں تو پھر باقی لوگوں کا کیا قصور ہے۔ہم اے پی ایم اے کے ساتھ بیٹھ کر کوئی منصوبہ ترتیب دے دینگے اور عدالت کو آگاہ کرینگے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہمارے سامنے کے پی کے کا معاملہ نہیں ہے ہم آئی جی کے بیان کو دیکھ رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری ذمہ داری کے ساتھ میٹنگ کریں اور سکیورٹی پلان مرتب کرکے عدالت میں پیش کریں۔ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اغوا کاروں کے بارے میں جانتے ہیں مگر جان کے خوف سے کسی کو نہیں بتا سکتے۔اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ایک ڈاکٹر اغواء کار کو جانتا ہے پولیس نہیں جانتی ہے ہمیں اس پر حیرت ہے اس پر آئی جی نے کہا کہ یہ پولیس کو بتائیں اغواء کاروں کو وہ بھی ضرور جانتے ہوں گے تو کارروائی کرینگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو ڈاکٹرز واپس آچکے ہیں وہ اغواء کاروں بارے پولیس حکام کو آگاہ کریں ۔ پولیس یونیفارم آپ کے ٹیکسوں سے بنی ہے اگر عوام خود قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ملزمان کیخلاف تعاون کرینگے تو پھر کون کرے گا؟ پولیس اکیلی کچھ نہیں کرسکتی کرائسز میں اگر جب تک اخلاقی جرات پیدا نہیں ہوگی معاملہ حل نہیں ہوگا، عام لوگو ں کی طرح پولیس حکام کی بھی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ہے آپ اغواء کاروں کا بتائیں۔گواہوں کے تحفظ کا فول پروف سکیورٹی دینگے آپ تفصیلی رپورٹ دیں عوام آگے بڑھ کرملزمان کے نام بتائیں آپ پڑھے لکھے لوگ اگر اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کرینگے تو پھر کون کرے گا ؟ آپ اس اس ملک کی کریم ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کسی کو آگے آنا پڑے گا وگرنہ سب ان معاملات سے دو چار رہیں گے تعاون کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ملزمان کا نام بتائیں پہلے چانس تو لیں معاملہ حل نہیں ہوگا تو ہم دیکھ لیں گے،عدالت نے حکمنامہ میں کہا کہ ڈاکٹروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے جو بھی ڈاکٹر اسلحہ لائسنس کیلئے درخواست دے اسے قانون کے مطابق فراہم کیا جائے۔چیف سیکرٹری بلوچستان کے مطابق اگرچہ پولیس نے کوئٹہ میں ضروری اقدامات کئے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان کیخلاف کارروائی جاری رکھیں اور سکیورٹی فراہم کریں، تمام طبقوں کے لوگوں کو ڈاکٹرز وغیرہ کو سکیورٹی فراہم کریں،چیف سیکرٹری ڈاکٹروں کی تنظیم سے میٹنگ کریں اورمنصوبہ ترتیب دیں۔آئی جی بلوچستان ڈاکٹروں کے اغواء میں ملوث ملزمان کیخلاف کی گئی کارروائی اور عدم بازیابی پر ہونے والے ڈاکٹروں بارے رپورٹ اگلی تاریخ سماعت پر پیش کریں ۔ قائم مقام آئی جی ایف سی خالد نسیم پیش ہوں گے،عدالت نے ایف سی کو ہدایت کی کہ وہ اگلی تاریخ سماعت پر مفصل رپورٹ پیش کریں کہ وہ غلط فہمی کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے تھے۔