تربت : انتخابات میں جیت ہماری ہوئی ہے اور وہ سب ہار چکے ہیں جنہوں نے ہار کے خوف میں عوامی مینڈیٹ پر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شب خون مارا ، کیچ کے عوام نے جمہوری انداز اختیار کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کرنے میں کسی کو بھی اپنے سر پر مسلط نہیں دے سکتے ہیں اور اپنے نمائندوں کے انتخاب میں وہ اپنے اختیارات اور حق رائے دہی کسی کو نہیں سونپ سکتے ۔
بلوچستان میں جاری انسر جنسی کو اگر روکنے میں ریاستی علمبردا ر اور مشینری واقعی مخلص ہے تو اسے بلوچ کے جمہوری حق رائے دہی اور مینڈیٹ کی قدر کرنی ہوگی ،ان خیالات کا اظہار بی این پی کے رہنما بلوچ دانشور جان محمد دشتی نے کل اپنی رہائش گاہ پر انتخابی مہم میں ساتھ نبھانے والے سینکڑوں ساتھیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
انہوں نے کہا کہ حاکموں کی مشینری اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ خطے میں بلوچ عوام نے اپنے اختیارات کا حق کسے سونپا ہے اور اصل جمہوری قوت کون ہے انہوں نے کہا کہ پورے ضلع میں بد ترین دھاندلی کے ذریعے باپ کے سپوتوں کو جبراً کامیابی دلانے کی کوشش میں عوام کی رائے کی دھجہیاں ن اڑائی گئیں اور ایسے نمائندے مسلط کیے گئے ہیں جنہیں بلوچ عوام جانتی تک نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا انتخاب لڑنے کا بنیادی مقصد کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے بلوچ کی آوز کو اوپر تک پہنچانا تھا ، ان کی بے روزگاری کے مسائل سے ارباب اختیار کو بتانا تھا اور ریاستی علمبراروں کو یہ بتانا تھا کہ خطے میں انارکی اور ا نسر جنسی کے خاتمہ کا ایک ہی سیاسی حل ہے کہ بلوچ کو راہی دہی کا حق دیا جائے اور ان کی آزادانہ سیاسی حیثیت تسلمے کی جائے اور انہین ان کے اختیارات سونپ دیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بلوچ کو پاکستان کے دائرے میں رکھ کر انتخابات لڑواتے ہو تو ان پر نمائندے کے روپ میں چور اور ڈاکو مسلط کرنے سے گریز کیون نہین برتی جاتی ؟
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں1975کو NAPکی حکومت کے خاتمے کے بعد بلوچ کو ایک ہی سیاسی پلیٹ پر منظم نہیں ہونے دیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے انہوں نے کہا کہ BNPکے نام پر جب بلوچ سیاسی پارٹیاں ایک ہو گئیں تو اسے بھی منتشر کرنے کے لیے پارتی کے اندر سے کالی بھیڑوں کو متحرک کر دیا گیا تھا ۔
جنہوں نے چال چلی اور اس یکجہتی کو بھی سبوتاژ کیا بلوچ سیاسی صفوں آج بھی وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور بلوچستان میں بلوچ سیاسی و جمہوری پارٹیاں آج بھی تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزر رہی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا آج بھی موقف یہی ہے کہ ہم انتخابات میں حصہ اس لیے لے چکے تھے کہ ہم بلوچ کی خرید و فروخت میں بھاگیداری نہیں بنیں گے اور حاکموں کو کہیں گے کہ بلوچ کو بلوچ کی دولت سے محروم رکھنے کی پالسیے ترک کی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ ایسے موقف اور پالسیوں کے پرچار کرنے والے شاید ملک کے حاکموں کو اچھے نہیں لگتے مگر ہم حاکموں کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی غیر سیاسی اور من چاہی پالیسوں پر عملدرآمد کر کے خطے میں مزید انارکی کو ہوا دینے کے موجب بن سکتے ہیں۔
کیونکہ بلوچ کا مسئلہ جنگی نہیں بلکہ سیاسی ہے ، اجتماع سے میجر جمیل احمد دشتی اور میر انور نے بھی خطاب کیا اور انتخابات میں ساتھ نبھانے پر بلوچ بھائیوں کا شکریہ ادا کیا ۔
تربت میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے، جان محمد دشتی
وقتِ اشاعت : July 27 – 2018