اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان ہوں یا مریم یا پھر کرونا کو شکست دینے والے بلاول ہوں یا محمود خان یا اختر مینگل کی ویڈیو شرکت یا میاں افتخار کی موجودگی میں اس اہم اجلاس کا تھا سب کو انتظار کیا مریم کے لاہور کے پرجوش استعفوں کے اعلان کی حتمی منظوری پی ڈی ایم دیگی یا اسلام آباد پر پی ڈی ایم کے دھاوا بولنے کا حتمی اعلان کیا جائیگا لگ بھگ پانچ گھنٹے تک سارے سیاسی رہنماؤں نے طویل بحث مباحثوں کیا نواز شریف اور آصف علی زرداری جنکے۔
Posts By: شاہد رند
گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول
یہ دو ہزار چھ کی بات ہوگی جب میں پہلی بار گوادرائیر پورٹ پر اترا تھا۔ گوادرکے بارے میں والدہ نے کہا تھا ہماری نانی اور انکے آباؤ اجداد کا تعلق گوادر یا اسکے قرب و جوار غالباً کلانچ کے علاقے سے تھا۔ میری والدہ کا ننھیال کا تعلق گوادر سے تھا جہاز سے اترتے ہی فرش پر بیٹھ گیا اس وی آئی پی وفد میں میرے ساتھ سینیئر صحافیوں کی ایک پوری ٹیم تھی قیصر محمود صاحب مرحوم اور ضرار خان کو لگا میری طبیعت خراب ہے فوری میرے قریب آئے اور پوچھا کیا ہوا سب ٹھیک ہے میں نے مسکرا کر کہا اس سرزمین سے میری نسبت جڑی ہے، اسکا پیار سمیٹ رہا ہوں۔
پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن
بلوچستان میں ترقی زمین پر نظر نہیں آتی اسکی ایک بنیادی وجہ پچھلے ستر سالوں میں منتخب نمائندوں نے اجتماعی منصوبوں کو ترجیح نہیں دی،ترقیاتی اسکیمات کے نام پر ذاتی اسکیمات منظور کروائی گئیں جسکے نتیجے میں آج بلوچستان پورے ملک سے پیچھے رہ گیا ہے۔دو ہزار دس تک بلوچستان وسائل نہ ہونے کا رونا روتا رہتا تھا اس رونے دھونے کے نتیجے میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ نے بلوچستان کو اتنے وسائل دیئے جتنے صوبے کی ساٹھ سالہ تاریخ میں نہیں ملے تھے لیکن یہ وسائل ایک سیلاب کی طرح آئے اور بہہ گئے، کوئی بند بنا کر ان پیسوں کو بچایا نہ گیا، مال مفت دل بے رحم کی طرح یہ پیسہ اراکین میں بانٹا گیا۔
ریکوڈک بد عنوانی میں ملوث افراد کے نام سامنے آگئے، امیر الملک مینگل سمیت 26افراد شامل ہیں
کوئٹہ: ریکوڈک معاملے پر نیب کے ریفرنس میں نامزد چھبیس افراد کے نام سامنے آگئے نیب میں ماسوائے ایک سابق نگراں گورنر تمام سیاستدانوں کو کلین چٹ جبکہ بلوچستان حکومت کے تمام سابق افسران نامزد کردیئے گئے روزنامہ آزادی کو حاصل ہونے والی ریفرنس کاپی کے مطابق ریکوڈک معاملے میں ہونے والی مبینہ کرپشن کے کیس میں بلوچستان حکومت کے ایک سابق نگران گورنر امیر الملک مینگل کے سوا دیگر نامزد افراد میں بلوچستان کے سابق چیف سیکریٹری سمیت مائنز اینڈ منرلز بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے سابق اعلی افسران اور بی ایچ پی اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کی مختلف شخصیات کو نامزد کیا گیا ہے۔
صفحہ بدلے گا؟
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے کوئٹہ جلسے کے روز سے بھانت بھانت کی بولیاں سن رہا ہوں کسی نے اسے صوبے کی تاریخ کا کامیاب جلسہ کہا تو کسی نے اسے مجلس اور جلسی کہا۔ میری ذاتی رائے میں یہ ایک کامیاب جلسہ تھاسب سے پہلے اسکی کامیابی کا سہرا مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل،محمود خان اچکزئی اور دیگر کے سر جاتا ہے اسکے علاوہ اس جلسے میں دیگر جماعتوں کی حیثیت میری نظر میں مہمان اداکاروں کی ہے۔ میرے لئے یہ بات اس وقت انوکھی ہوتی جب مولانا فضل الرحمان تن تنہا یہ مجمع اکھٹا کرتا، سردار اختر مینگل یا پھرمحمود خان اچکزئی کی جماعت ایسا کرتی تو پھر انگشت بدنداں بیٹھا سوچتا کہ یہ کیا ہوگیا۔
اختر مینگل مریم نواز ملاقات،بلوچستان حکومت کیخلاف متفقہ لائحہ عمل پر اتفاق
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی اور ن لیگ کا پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو مزید مضبوط بنانے پر مکمل اتفاق ہوا ہے جبکہ بلوچستان میں موجود بی اے پی اور تحریک انصاف کی اتحادی حکومت گرانے کے آپشنز بھی زیر غور لائے گئے ہیں زرائع کے مطابق گزشتہ روز بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل جاتی امراء پہنچے جہاں انکی ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز شریف سے تفصیلی ملاقات ہوئی ملاقات کے دوران سردار اختر مینگل نے بلوچستان کی جماعتوں کی دعوت پر مریم نواز شریف کی کوئٹہ آمد اور بلوچستان کے اہم مسائل پر واضح موقف اختیار کرنے پر انکا شکریہ ادا کیا۔
کہیں نگاہیں کہیں نشانہ
پی ڈی ایم جس دن سے قائم ہوئی ہے یہ بات طے ہے کہ اس میں شامل گیارہ جماعتیں اگر اکھٹی رہ سکتی ہیں تو اسکا ایک آسان فارمولہ ہے کہ کسی ایک یا زیادہ سے زیادہ دو نکتوں پر اتفاق کرکے تحریک چلائیں کیونکہ تمام امور پر اتفاق ممکن نہیں اور اگر سب کو تمام امور پر اتفاق پر مجبور کیا جایئگا تو اس الائنس کا شیرازہ بکھر جائیگا،اس اپوزیشن اتحاد میں شامل کوئی جماعت پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں گئی ہے جہاں زور دار تقاریر سے سیاسی حکومت کی نالائقیوں اور ان پر مقتدرہ کی جانب سے چپ سادھے جانے پر اپوزیشن ناراض ہے اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہر جماعت اپنی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
آدھا سچ اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ
اس وقت ملک میں سیاسی درجہ حرارت یعنی ستمبر میں جون جولائی سے زیادہ گرم ہے اور جو حالات بتارہے ہیں دسمبر کی شدید سردیوں میں ایک تحریک تیار ہوگی یہ تحریک اپوزیشن کی پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں کے اتحاد و اتفاق کے صورت میں قائم رہ سکتی ہے۔ مختلف الخیال مختلف نظریات رکھنے والے مذہب،قوم،وفاق و جمہوریت پرست یک نکاتی ایجنڈے پر اکھٹے ہیں کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو اب گھر بھیجنا ہے۔ان گیارہ جماعتوں کو ایک اور ایک گیارہ بنایا ہے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے جنکا نام ہے پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن۔
زرداری کا ٹرمپ کارڈ
مجھے آصف علی زرداری پر اعتبار نہیں ہے یہ کوئی اور نہیں خواجہ آصف کہہ رہے تھے،ٹائمنگ بہت اہم تھی ابھی تو اے پی سی کی قرار داد بھی تازہ ہے ابھی تو میاں نواز شریف کی دھواں دھار تقاریر جاری تھیں اور کون نہیں جانتا کہ خواجہ آصف ن لیگ کے اس گروپ میں نمبر ٹو کہے جاسکتے ہیں جس گروپ کے سربراہ میاں شہباز شریف ہیں کیا نیب دفتر سے یہ پیغام آیا تھا یا یہ پہلے طے تھا اور کیا اسکے بعد پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا اہم جزو رہے گی یہ سارے سوال اپنی جگہ پر ہیں۔ آج بات کرتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی اے پی سی میں کیا چاہ رہی تھی کیا ہوا کیسے ہوا اور اب آگے کیا ہوگا؟
نواز شریف بیانیہ،مکران اور جھالاوان ڈاکٹرائن
عید قرباں سے قبل اے پی سی کا اعلان ہوا لیکن تاریخ نہ آئی،اسی اثناء میں میر حاصل خان بزنجو کینسر سے لڑتے لڑتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اسکے چند ہی دنوں بعد اپوزیشن کی اے پی سی کا اعلان ہوگیا۔میرحاصل خان بزنجو کی وفات اور سردار اختر مینگل کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے عدم شرکت کی اطلاع آنے کے بعد اے پی سی کی میرے لئے قومی سطح پر تو اہمیت کی حامل تھی لیکن بلوچستان کے حوالے سے کوئی خاص جوش نہ تھا لیکن اس موقع پر جو کچھ ہونا تھا جو کچھ ہوا وہ میرے اندازے میں نہیں تھا۔ میاں نواز شریف کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول ہونے کی خبر پر میرے کان کھڑے ہوگئے۔