بلوچستان کے قبائلی روایات اور رسم و رواج کی وجہ سے آج بھی خواتین مشکلات اور پسماندگی کا شکار ہیں ۔قبائلی نظام اور سخت معاشرتی و قبائلی قوائد کی وجہ سے خواتین کی تعلیمی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2017 کے ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں گرلز ایجوکیشن 23فیصد ہے جبکہ کوئٹہ کے علاوہ یہ شرح مزید کم ہے بلوچستان میں قبائلی جھگڑے بھی خواتین کو مشکلات سے دوچار کرتے آ رہے ہیں جبکہ نصیرآباد ڈویژن جو کہ سندھ سے ملحقہ علاقہ ہے جہاں سیاہ کاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کے فرسودہ واقعات زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ان واقعات میں اکثر خواتین ہی لقمہ اجل بنتی ہیں اور موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں
Posts By: ولی محمد زہری
بلوچستان: خواتین کو صحت عامہ میں درپیش مشکلات
بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت جدید ترقی سمیت تعلیم ، صحت، روڈ، انفرسٹریکچر و دیگر بنیادی سہولیات کے حوالے سے انتہائی پسماندہ ہے۔ بلوچستان میں خواتین کی ایک بڑی شرح علاج و معالجہ کی عدم سہولیات کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات کے حوالے سے انتہائی پستی پر ہے۔ بلوچستان میں خواتین کی اکثریت دوران حمل یا زچگی کے وقت موت کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ بکھری اور کم آبادی کے باعث ہسپتال طویل فاصلوں پر ہیں جہاں پہنچتے پہنچتے خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
*بلوچستان میں تعلیمی شرح اور ہمارے حکمران*
تعلیم کی اہمیت و افادیت سے کوئی ذی شعور شخص انکارنہیں کر سکتا موجودہ ترقی اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم تعلیم ہی کی مرہون منت ہیں۔ بلاشبہ جن قوموں نے تعلیم کو اولیت دی ہے وہی قومیں دنیا پر راج کر رہی ہیں۔ تعلیم ہی پسماندگی اور غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ ہے۔جہاں کہیں بھی تعلیمی شرح بہتر ہے وہاں حقیقی معنوں میں ترقی اور شعور کا انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ دنیا کے گنجان ترین براعظم ایشیاء میں تعلیمی میدان میں پاکستان سب سے آخر میں ہے۔ پھر پاکستان میں بلوچستان انتہائی آخری نمبر پر ہے۔ اور پھر گرلز ایجوکیشن (بچیوں کی تعلیم) انتہائی کم سطح پر ہے۔
*سیاہ کاری کے واقعات اور ریاستی قوانین*
پاکستان سمیت دنیا بھر میں صنفی مساوات کی بات بڑے تواتر اور انہماک سے کی جاتی رہی ہے،حقوق نسواں اور انسانی حقوق سے متعلق سیمینار اور آگاہی فراہم کرنے کیلئے ٹریننگ اور مجالس کا باقاعدگی سے انعقاد بھی کیا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے خواتین پر مظالم ،فرسودہ اور قبیح رسومات ہنوز جاری و ساری ہیں۔ ایسی ہی ایک خطرناک رسم و رواج سیاہ کاری جسے عرف عام میں کاروکاری یاغیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے۔ بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن جوکہ سندھ سے ملحقہ علاقے پر مشتمل ہے میں خواتین کو اب تک سیاہ کاری کے الزام کے تحت قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے خواتین وبے گناہ بچیوں سمیت بوڑھی خواتین تک پر اس طرح کا شرم ناک الزام لگا کر انہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا رہا ہے اور قاتلوں کی اکثریت قانون کی گرفت سے آزاد ہی رہتی آ رہی ہے۔
کاکس کا مقصد خواتین اور محروم طبقات کی قانون مدد کرتا ہے، رومینہ خورشید
آسلام آباد: مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی و خواتین پارلیمنٹرین کاکس کے سیکرٹری خزانہ رومینہ خورشید نے کہا ہے کہ کاکس کا مقصد خواتین اور محروم طبقات کی بہتر انداز میں قانونی و اخلاقی مدد کرنا ہے اس سلسلے میں قانون سازی کرکے انہیں جائز مقام دیا جا سکتا ہے خواتین کی سیاسی عمل میں بہتر نمائندگی کے ساتھ دیگر شعبوں میں بھی اور دیگر محروم طبقات کو نمائندگی دیگر انہیں ان کا جائز مقام دیا جا سکتا ہے کاکس وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر بھی قائم ہے اور صوبوں میں غیر قانونی اور ناروا سلوک کے خاتمے کیلئے صوبے بھی فعال کردار ادا کرکے محروم طبقات کو معاشرے بہترین ماحول میں زندگی گزارنے کے مواقع مل سکتے ہیں۔
ایف آئی اے عوامی شکایات آئن لائن اندراج کرتی ہے، ایازاحمدخان
اسلام آباد: ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر ونگ اسلام آباد ایاز احمد خان نے کہا ہے کہ ایف آئی اے عوامی شکایات آئن لائن اندراج کرکے متاثرین کی داد رسی کیلئے جلد کاروائی عمل میں لاتی ہے اور فوری ایکشن لیکر مزید دیگر اداروں سے رابطہ کرکے ملزم کو قانون کے شکنجے میں لایا جاتا ہے۔
*ریکوڈک اور بلوچستان*
پیپلزپارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ملک کے جمہوریت پسند قوتوں نے صوبوں اور ملکی اکائیوں کو خود مختیاری یعنی زیادہ اختیارات دینے والا بل قومی اسمبلی وسینٹ سے پاس کرکے 18 ویںترمیم کی صورت میں ایک بااختیار اور آئینی حوالے سے صوبوں کو ان کے وسائل وساحل کا حق ملکیت اور اختیارات تفویض کر دیا۔ اس طرح اٹھارویں ترمیم سے قبل بہت سے وفاقی محکمے جو مرکزکے پاس تھے وہ سب صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے۔
بلوچستان میں کھاد بحران اور طاقتور مافیاز کا کردار
ملک میںبلوچستان پسماندگی اور عدم ترقی کے حوالے سے یقینا مشہور و معروف ہے جہاں سالانہ اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں یا نام نہاد عوامی ترقی پر خرچ ہوتے آ رہے ہیں تاہم نہ تو عوام ان اربوں روپے کی ترقیاتی منصوبوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے طول و عرض میں ان اربوں روپے کی مد میں ہونے والی ترقی عام وخاص کو نظر آ رہی ہے۔ بلوچستان ستر سالوں میں جتنی ترقی اور خوشحالی کاغذوں میں کی ہے شاید ہی پاکستان کے کسی دوسرے صوبے نے کی ہو۔
الزامات کی سیاست اور زمینی حقائق
سیاست کو عبادت اور خدمت کا درجہ دینے والے نمائندوں نے ہی اب اسے غیر مہذب اور گالم گلوچ کا پلندہ بنا دیا ہے۔ اب تو حقیقت بیان کرنا یا قلمبند کرنا آ بیل مجھے مارنے کے مترادف بن چکا ہے۔ پاکستان میں اب حقیقی سیاست کی جگہ گالم گلوچ، بدتمیزی اور کردار کشی مکمل طور پر ہمارے اندر سرایت کر چکی ہے۔
*مولانا کی گوادر تحریک ،حکومت اور سیاسی جماعتوں کی خاموشی*
سی پیک دنیا کا واحد عظیم منصوبہ ہے جو پاکستان کے ذریعے چائنا دنیا کو جوڑ رہا ہے پوری دنیا اسی عظیم پراجیکٹ کے تحت ون روڈ ون بیلٹ سے منسلک ہو کر تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا محور بنتا جا رہا ہے۔ گوادر دنیا کا سب سے گہرا پورٹ اور گہرے ساحل سمندر کا عظیم تحفہ ہے جو کہ بحری جہازوں کیلئے انتہائی آئیڈیل ہے یہ گوادر شہر جو پاکستان کو دنیا میں متعارف کرنے والا ساحلی شہر ہے جوکہ سی پیک کے باعث پرفریب ترقی اور آنکھوں کو دھوکہ دینے والی تبدیلی سے فیض حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔