سیاست کو پہلے یعنی ریاست مدینے کے وقت عبادت کا درجہ دے کر خلق خدا اور انسانیت کی خدمت کی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ سیاست میں مکاری دھوکہ دہی اور سیاست کاروباری بننے لگا۔ اب ہم سب بلاشبہ یہ ماننے پر حق بجانب ہیں کہ سیاست آج کل یا موجودہ حالات میں منافع بخش کاروبار کی روپ دھار چکی ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے برملا کہا تھا کہ آ جائو سیاست میں لگ گیا تو وزیر نہیں تو فقیر۔ بالکل موجودہ حالات اسی بات کی مکمل عکاسی کرتے ہیں تاہم عام انتخابات ہوں یا سینٹ، امیدوار دل لٹا کر دولت خرچ کرتے ہیں پاکستانی سیاست دنیا کی نسبت منافع بخش اور طاقت کا محور سمجھا جا تا ہے اسی وجہ سے جس شعبے میں وافر مقدار میںپیسہ،اقتدار طاقت رعب و دبدبہ ہو پاکستانی قوم اس عہدے کیلئے دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں۔
Posts By: ولی محمد زہری
*انوکھی فراڈ، زراعت کی تباہ حالی میں محکمہ زراعت کا کردار*
بلوچستان ملک کے تینتالیس فیصد رقبے پر مشتمل بڑا صوبہ ہے لیکن صوبے کی آبادی زرعی اور مردم شماری کے حوالے سے ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ پورے صوبے میں لاکھوں ایکڑ بنجر اور غیر آباد زمینیں پڑی ہوئی ہیں ۔پانی کی عدم دستیابی اور برساتی پانی کو قابل استعمال یااسٹور کرنے کیلئے ڈیمز کے فقدان کے باعث صوبے میں صرف چار اضلاع دریائی پانی سے سیراب ہو رہے ہیں ۔بلوچستان میں سوائے میرانی ڈیم کے کوئی بڑا ڈیم نہیں۔ صوبے میں برساتی پانی ذخیرہ کرنے پر حکمرانوں نے کوئی خاطر خواہ توجہ ہی نہیں دی ہے۔
ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی کے حامل چھٹا بڑا شہر اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر، قبرستان سے محروم، ذمہ دار کون
بلوچستان میں شہری آبادی میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے شہروں میں آبادی کا سب سے بڑا سورس ذرائع آمدن کی سہولیات، روزگار کے وسیع مواقع اور حصول ذرائع معاش ہے۔ جہاں لوگ مختلف اقسام کے کاروبار سمیت محنت و مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں وہاں ان شہروں میں کاروبار تجارت روزگار کے ساتھ ساتھ مسائل کے بھی انبار لگتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان ملک کا بلکہ پورے ایشیاء کا غریب ترین علاقہ ہے جہاں غربت کی شرح پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔
اہلیان ڈیرہ مراد جمالی سے اداروں اور نمائندوں کا سلوک اور عوام کی خاموشی
ڈیرہ مراد جمالی صوبے کے زرخیز اور گنجان آبادی والا ضلع اور ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ نصیرآباد سیاسی اور زرعی حوالے سے بلوچستان کی اہمیت کا حامل علاقہ رہا ہے اور ضلع کی سیاسی زعماء روز اول سے ہی سیاسیمیدان میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈیرہ مراد جمالی صوبے کی زرعی معیشت کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے شہر کی آبادی میں روز بروز اضافہ کے باعث اب ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان کا چھٹا بڑا شہربن چکا ہے ۔نصیرآباد ضلع کی سیاسی قیادت ہر دور میں وزارتوں اور حکومتی اتحادیوں پر براجمان رہنے کے باوجود شہر کی عدم ترقی اور پسماندگی اہل سیاست کا منہ چھڑا رہی ہے ۔
بلوچستان میں پی ڈی ایم کی تحریک اور عوامی حمایت*
پی ڈی ایم جس مقصد کیلئے بنایا گیا اور جس طرح شروع میں حکومت کے خلاف موثر تحریک کا آغاز ہوا عوام اور سیاسی جماعتیں ملک میں تبدیلی کے آثار دیکھنے لگے تھے جب پی ڈی ایم نے گجرانوالہ کراچی کوئٹہ ملتان لاہور پشاور فیصل آباد و دیگر بڑے شہروں میں بڑے اور تاریخی اجتماعات کئے عوام کو یقین ہوگیا کہ اب کی بار ملک میں سیاسی اور جمہوری تبدیلی کا غالب امکان پیدا ہو جائے گا لیکن جب پی ڈی ایم نے سینٹ سے قبل استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو اس اعلان سے جہاں حکومت وقت لڑکھڑاتی ہوئی نظر آ رہی تھی وہیں پی ڈی ایم بھی اندورن خانہ ختلافات کا شکار ہونے لگی ۔
وزیر اعلی جام کمال کے وعدے اور مجوزہ دورہ سے وابستہ امیدیں*
بلوچستان میں رہنے والے یا یوں کہا جائے کہ بلوچ با الخصوص قول و فعل اور وعدوں کے دھنی ہوتے ہیں وہ جو قول یا اعلان کرتے ہیں اس پر جان قربان کرنے بھی دریغ نہیں کرتے۔ آپ کو بلوچوں کی تاریخ میں ایسے ہزاروں داستان ملیں گے کہ انہوں نے جو وعدہ یا قول کیا اس پر اپنا خاندان اور قوم کی قربانی سے کبھی دریخ تک نہیں کیا۔ لیکن افسوس ہماری سیاست بلوچیت اور عبادت سے ہٹ کر ہی ہے۔ ہماری اب تو روایات بن چکی ہیں کہ جو جتنا زیادہ جھوٹ دھوکہ فریب دینے میں ماہر ہوگا وہ سیاسی میدان کا بڑا کھلاڑی اور عظیم سیاست دان ہوگا۔
*بلوچستان کے سیاست دان سیاسی قزاق یا عوامی رہبر*
آزاد بلوچستان کا پاکستان سے الحاق کرنے،ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سے لیکر اب تک بلوچستان وفاقی حکومت کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہا ہے بلوچستان پر تین بارفوج کشی کرنے کے بعد بھی بلوچستان وفاق کی اولین ترجیحات میں شامل نہ ہو سکا۔ بلوچستان کو کرسی وزارت مراعات اور اقتدار کے کھیل نے ترقی کے بجائے بدحال کر دیا۔ آپ اس امر سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 1970سے لے کر اب تک بلوچستان کو کسی بھی وفاقی حکومت نے اس کا جائز حق تک نہیں دیا۔ بلوچستان کاوفاقی ملازمتوں میں کوٹہ آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ پاکستان سیکرٹریٹ میں بلوچستان کا ایک بھی سیکرٹری تک موجود نہیں۔
مکافاتِ عمل یا پھر بلوچستان ہی تبدیلی کا اکھاڑہ*
حالات کب اور کیسے بدل جاتے ہیں ان ہی حالات کے کسی کو کوئی خبر یا الحام نہیں ہوتا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ جو جس طرح کریگا اس کے ساتھ بھی وقت و حالات کے مطابق اسی طرح ہو سکتا ہے بلکہ ہر عمل اور کردار کا ایک ری ایکشن اور جوابی رد عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح 2018 ہی میں نواز شریف کے حکومت کے خلاف اس وقت کے اپوزیشن سمیت طاقتور طبقوں نے ایک مہم کا آغاز کیا اور مسلم لیگی حکومت کو مارچ سے قبل ہی ختم کرنا مقصود تھا کیونکہ مارچ میں ہی ایوان بالا سینٹ کے انتخابات منعقد ہو رہے تھے اسی وجہ سے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ تھا کہ اگر سینٹ میں نواز شریف کو اکثریت مل گئی۔
بلوچستان کو عزت دو، موجودہ حالات کا تقاضا
جدید ترقی اور سول لائزڈ معاشرے میں ترقی کا آغاز پسماندہ علاقوں سے ہی کیا جاتا ہے جبکہ آئین پاکستان بھی پسماندہ اور عدم ترقی کے حامل علاقوں اور صوبوں کی ترقی کی ترجیحی بنیادوں پر وکالت کرتی ہے۔ بلوچستان ملک بلکہ یوں کہا جائے کہ خطے کا پسماندہ ترین علاقہ ہے توبے جا نہ ہوگا بلوچستان کو ستر کی دھائی سے صوبہ کا درجہ ملا ہے لیکن اب تک کسی بھی حکمران نے صوبے کی پسماندگی اور بڑا رقبہ ہونے کے باعث کوئی بھی میگا منصوبہ کا آغاز نہیں کیا یا کسی بھی حکمران نے بلوچستان کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کا سوچا تک نہیں ہے۔
بلوچستان کی ترقی کے نام پر حکمرانوں کی ڈرامے بازیاں *
ترقی کا تعلق روزمرہ زندگی کے تمام تر سہولیات کی فراہمی سے ہے۔ بلاشبہ اکیسویں صدی کو دنیا کا جدید ترقی یافتہ دور کہا جا رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ قومیں جدید ترقی سے بہتر انداز میں بہرہ مند ہو رہی ہیں اور ساتھ تر قی یافتہ ممالک کے لوگوں کو جدید ہسپتالوں میں جدید طرز علاج بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں تعلیم کے میدان میں انقلاب آچکا ہے ترقی یافتہ ممالک میں کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے باعث تمام بچوں کو آن لائن ایجوکیشن فراہم کی جاتی رہی لیکن پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ترقی کے اب تک معیار کا تعین تک نہیں ہو سکا ہے۔