بلوچستان ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ 47فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔ شومئی قسمت کہ بلوچستان جتنا بڑا صوبہ ہے اتنا ہی زیادہ پسماندگی محرومی اور بدحالی کا شکار ہے۔ جہاں کے باشندے ترقی کے نام سے واقف تک نہیں آپ کو پورے بلوچستان میں نہ تو معیاری اور جدید ترقی یافتہ شہر ملیں گے اور نہ ہی اس صوبے کے باسیوں کو بہترین ہسپتال و علاج معالجہ کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی بلوچستان تعلیمی میدان میں کوئی خاطر خواہ نتائج دے رہا ہے۔ آپ بلوچستان کی بدحالی اور عدم ترقی کا حال کئی برسوں سے سن رہے ہونگے۔
Posts By: ولی محمد زہری
*بارش میں بلوچستان کے ڈوبتے شہر اور بے بس مکین*
بلوچستان میں بارشیں دیگر صوبوں کی نسبت مون سون کے موسم بلکہ پورے سال میں کم ہوتی ہیں جس کے باعث بلوچستان کا وسیع و عریض رقبہ بنجر اور غیر آباد ہے اور صوبے میں پانی کی کمی کا بحران ہمیشہ سے رہتا آ رہا ہے اور ساتھ ہی مون سون کے موسم میں بلوچستاں کے کم علاقے ہی آتے ہیں جبکہ باقی علاقوں میں بارشیں کم ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی روز بروز گرتی جا رہی ہے بلوچستان کے سوائے نصیرآباد جعفرآباد صحبت پور اور جھل مگسی کے کچھ علاقوں کے باقی تمام تر علاقوں میں آبادی کا انحصار قدرت کے اس رحمت یعنی بارشوں پر ہے۔
کیا ملک میں جاری یزیدیت کے خلاف عوام کی قربانی دینے کا وقت آگیا ہے؟
واقعہ کربلا حق اور باطل کے درمیان معرکہ تھا، یزید نے جب اپنی خلافت کا اعلان کیا تو کوفہ و دیگر علاقوں کے مسلمانوں نے امام عالی مقام حضرت امام حسین کو پیغام بھیجا کہ ہم یزید کی خلافت کے بجائے آپ کو خلیفہ اور امیر المومنین تسلیم کریں گے، آپ کوفہ آجائیں ہم آپ کی امارت اور خلیفہ ہونے کا آپ کی ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اللہ کی طرف سے شہدا ء کربلا کی قربانیں ازل سے طے تھیں اوراس طرح کی مثالی قربانی سے ہی اسلام میں حق وباطل کو عیاں کرنا مقصود تھا اورساتھ ہی اہل کوفہ کی داستاں غداری کوعیاں کرنا کہ ایسے غداروں کوتاقیامت لعنت وملامت کیا جائے گا۔
*بلوچستان کے روڈ سیکٹر کی بدحالی میں این ایچ اے کا کردار، صوبائی حکومت کی عدم توجہی اور عوام کی بے حسی*
پاکستان میں سب سے زیادہ روڈ حادثے بلوچستان میں ہوتے ہیں اور ان حادثات کی بدولت بلوچستان میں ہی پاکستان کے مقابلے میں روڈ حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے ایک ماہ یعنی جولائی میں روڈ حادثات میں ایک ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہونے والی انسانی اموات کا صرف جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اتنی اموات کا ذمہ دار نہ تو ریاست ہے اور نہ ہی قومی وصوبائی حکومتیں ہیں۔ تاہم ان قومی شاہراؤں سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کروڑوں روپے کا ٹول ٹیکس یعنی جگا ٹیکس وصول کر رہا ہے جبکہ اس کے باوجود بلوچستان میں قومی شاہراؤں کی تباہ حالی اور خستہ حالی کو بہتر کرنے میں این ایچ اے اور وفاق اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
بلوچستان کی ترقی، مون سون بارشیں اور گڈ گورننس کی حقیقت
گزشتہ دنوں بلوچستان میں بارشوں نے جہاں حکومت کی کارگردگی اور نام نہاد ترقی کو زمین بوس کیا وہاں بلوچستان میں گڈ گورننس کی بھی قلعی عوام کے سامنے کھل گئی۔ بلوچستان کے چند اضلاع مون سون زون میں شامل ہیں اور سالانہ مون سون سیزن میں بارشیں تباہی مچاتی رہتی ہیں لیکن اب تک بلوچستان کی گڈ گورننس کے دعویدار حکمرانوں کی بہترین گورننس ہمیشہ ہی ان بارشوں کی نظر ہوتی رہی ہے۔ گڈ گورننس کا نعرہ عوام کافی عرصے سے سنتے آ رہے ہیں لیکن یہ گورننس اب تک حقیقی معنوں میں صرف خواب اور سرآب ہی ثابت ہوا ہے۔
*تجدید یوم آزادی,ملکی ترقی اور ہماری غلامانہ سوچ*
پاکستان 14اگست کو وجود میں آیا۔دنیا میں دو ممالک پاکستان اور اسرائیل ہیں جو مذہب کے نام پر معرض وجود میں آئے اسی وجہ سے ہی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کے نعرے لگائے گئے۔ لیکن قائداعظم کا پاکستان ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کے باعث ترقی سے ہمکنار ہونے کے بجائے ایشیاء کے تمام چھوٹے بڑے ممالک میں معاشی و اقتصادی حوالے سے سب سے آخری نمبر پر آچکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان قائداعظم کی انتھک محنت اور قائدانہ صلاحتیوں کی بدولت مسلمانان ہند کو عرض پاک جیسا عظیم اور خوبصورت ملک نصیب ہوا، یقینا آزادی جیسی عظیم نعمت پاکستانیوں کیلئے قدرت کا ہی تحفہ ہے۔
بلوچستان کا قبائلی نظام، جمہوری اقدار،آزادی صحافت اور صحافتی قتل،ذمہ دار کون……؟؟
فرعون دنیا کا واحد حکمران تھا جو خدائی کا دعویدار تھا لیکن اس فرعون میں تین اچھائیاں تھیں جن کی بدولت خدا انہیں مزید مواقع دے رہا تھاکہ شاید وہ راہ راست پر آجائے۔ان تین خوبیوں یاصفات میں پہلی خوبی بہترین عدل و انصاف اور منصف یعنی حقائق پر مبنی فیصلے کرتے تھے،دوسری خوبی سخاوت روزانہ سینکڑوں گائے اونٹ بکریاں ذبح کرکے اپنے عوام اور رعایا کو کھانا کھلاتا تھا،تیسری خوبی مظلوم ومحکوم پر رحم دلی اور ترس کا مظاہرہ کرتا تھا۔ ان تین خوبیوں کی بدولت فرعون کی فرعونیت جاری و ساری تھی جب فرعون نے ان خوبیوں میں کمی یا ان کو بند کرنا شروع کر دیا۔
کیا صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے بلوچستان ترقی سے ہمکنار ہو سکے گا؟
گزشتہ دنوں سینیٹ آف پاکستان(ایوان بالا) نے بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کے لیے آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم کا بل متفقہ طورپر منظور کرلیا۔ منظور شدہ آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں بلوچستان کی آبادی میں 1کروڑ 20 لاکھ کااضافہ ہوا ہے لیکن بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ نہیں کیاگیا۔ آئینی بل میں اراکین سینٹ نے مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں 63 سے بڑھاکر 80 کی جائیں۔ جس پر سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 106 میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا، آئینی ترمیمی بل کی حمایت میں 71 ووٹ آئے۔ یہ بل سینیٹر سجاد طوری، عثمان خان کاکڑ، مولانا عبدالغفور حیدری، شاہزیب خان درانی، سرفراز بگٹی، شفیق ترین، میرکبیر جان محمد شہی، سردار یعقوب خان ناصر، کہدہ بابر اور بلوچستان کے دیگر سینیٹرزکی جانب سے پیش کیاگیا تھا۔
*باپ پارٹی سے وابستہ توقعات امیدیں اور بلوچستان کی ترقی کا خواب*
سیاسی جماعت، سیاسی گروہ بندی کا نام ہے جو کسی بھی خطے میں ریاست کی حکومت میں سیاسی طاقت کے حصول کے لیے تشکیل دی جاتی ہے۔ سیاسی جماعت کسی بھی ریاست میں انتخابی مہم،صحت عامہ کی سہولیات،عوامی کی فلاح و بہبود کی ترقی، بنیادی انفراسٹرکچر کے فروغ، تعلیمی اداروں میں فعالیت یا پھر عوامی احتجاجی مظاہروں کی مدد سے اپنی موجودگی اور سیاسی طاقت کا اظہار کرنا جماعتوں کے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اکثر اپنے نظریات، منصوبہ جات اور اپنے نقطہ نظر کو تحریری صورت میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں جو اس جماعت کا منشور کہلاتا ہے۔
**ٹوئیٹر و سوشل میڈیا پر بلوچستان کی تیز رفتار ترقی اور ہمارا نظام احتساب*
ایک بادشاہ کسی سفر پر جا رہا تھا کہ اس نے اونٹوں کے ایک گلہ کو دیکھا جوکہ ایک ہی قطار میں ڈسپلن کے ساتھ جا رہے تھے، بادشاہ نے اس چرواہے سے پوچھا کہ اس طرح اونٹوں کو ڈسپلن برقرار دیکھنے میں آپ کس طرح کی حکمت و منطق ایجاد کی ہے تو چرواہے نے کہا کہ سخت فیصلے اور غلطی پر سزا تو بادشاہ متاثر ہوا اور اسے اپنی بادشاہی میں وزارت داخلہ دینے کی پیشکش کی اور ملک میں مثالی امن وامان کی بحالی کی شرط پر وزارت داخلہ چرواہے کو دے دی گئی۔ ایک مرتبہ کسی چور کو وزیر داخلہ کی عدالت میں لایا گیا تو موصوف وِزیر داخلہ نے بیانات سننے کے بعد چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کیا۔