رقبے کے لحاظ سے بلوچستان مملکت خداداد کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی، معدنی اور ساحلی وسائل سے مالا مالا اس خطے کا سب سے امیر سرزمین بلوچستان پاکستان کے دوسرے صوبوں سے پسماندہ ہے۔ یہاں سیندک اور ریکوڈک کے ذخائر موجود ہیں، 780 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی جو کہ ایک بین الاقوامی بحری گزرگاہ ہے۔ اس کے باوجود بلوچستان میں اچھے تعلیمی ادارے، ہائی ویز اور ہسپتال نہیں ملیں گے۔قیام پاکستان سے لیکر سے اب تک اس صوبے کے عوام کے ساتھ وفاق کا سوتیلی ماں جیسا سلوک جاری ہے۔
Posts By: ظریف بلوچ
پسنی تیار فصلوں پر ٹڈی دل کا حملہ
ٹڈی دل جسے بلوچی میں (مدگ) کہا جاتا ہے۔ ضلع گوادر میں طویل خشک سالی کے بعد جب گذشتہ سال بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگء تو ٹڈی دل بھی علاقے میں ظاہر ہونے شروع ہوگئے۔ ماضی بعید میں ضلع گوادر میں ٹڈی دل ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فصلوں اور سر سبز درختوں پر حملہ آور ہوکر انکا صفایا کرتے تھے۔اور ماضی میں ٹڈی دل کے خاتمے کے لئے ایک وفاقی ادارے کے اسپرے کا بعد کئی سال تک ضلع گوادر میں ٹڈی دل کا نام و نشان باقی نہیں رہا۔گذشتہ سال کے بارشوں کے بعد ٹڈی دل کا دوباہ ان علاقوں میں افزائش نسل شروع ہوئی، کیونکہ انکے انڈے زیر زمین موجود تھے۔
زر پبلک سکول گوادرتعلیم کے فروغ میں پیش پیش
میں نے ایک ملاح سے پوچھا کہ سمندر کی گہرائی کتنی ہے؟۔ تو اس نے کہا کہ ”زر“ گواز نہ بیت“ یعنی سمندر کی گہری کو ناپنا ممکن نہیں۔ اور جب بھی نجی تعلیمی اداروں کی بات ہو تو گوادر میں زر سکول کا نام لیا جائے گا۔بقول ملاح کے جب زر کو ناپنا ممکن نہیں تو ایک ماہر تعلیم کے مطابق علم اور سمندر کی تہہ تک جانا بھی ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
لاک ڈاؤن کی صورتحال
لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہر کی اکثر دکانیں بند تھیں، شاہراہوں پر معمول سے کم ٹریفک رواں دواں تھا۔ منچلے نوجوان اس لاک ڈاؤن کو ایک مذاق اور تفریح سمجھ کر پکنک منانے مختلف پکنک پوائنٹس کی طرف جا رہے تھے۔ محلے کے اکثر گلی کوچے کرکٹ گراؤنڈ بن چکے تھے۔لوگ یہ جانتے ہوئے کہ شہر میں کیوں لاک ڈاؤن ہے؟ پھر بھی گھروں میں رہنے کی بجائے آوارہ بن کر شاہراہوں، دکانوں کے سامنے اور عوامی مقامات پر اجتماع لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔
تربت، مفت ٹیوشن
انسانیت کے جزبے سے سرشار لوگ کبھی یہ نہیں دیکھتے ہیں،کہ انسانیت کے خدمت اور سماجی کاموں کے لئے انکے پاس کیا وسائل موجود ہیں۔ ایسے لوگ کسی مسیحا کے انتظار کئے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت سماجی کاموں کا آغاز کرتے ہیں۔کیونکہ انکے اندر جزبے اور حوصلے انہیں آگے بڑھانے میں موقع فراہم کرتے ہیں اور ناممکن کو ممکن بنادیتے ہیں۔ مکران کے ضلعی ہیڈکوارٹر تربت میں نوجوانوں کے ایک ٹیم نے اپنے علاقے میں فروغ تعلیم کے لئے اپنی مدد آپکے تحت مفت ٹیوشن پڑھانے کے لئے ایک ادارہ قائم کیا، جہاں وہ علاقے کے غریب طلباء و طالبات کو رضاکارانہ طور پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں۔
کرونا وائرس اور مکران
چائنا کے شہر ”ووہان“ میں تین ہزار سے زائد ہلاکتوں کے بعد اب کرونا ایران اور اٹلی میں انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے۔ کیونکہ اٹلی اور ایران میں روزانہ سیکڑوں افراد کرونا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ ووہان سے یہ وائرس اب مشرق وسطیٰ، یورپ، امریکہ اور جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے معمولاتِ زندگی شدید متاثر ہونے کی وجہ سے کاروبارِ حصص میں مندی کا رجحان برقرار ہے، اور پاکستان سمیت کئی متاثرہ ممالک میں اسٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان کے باعث سرمایہ کاروں کے کھربوں روپے ڈوب چکے ہیں۔
خارپشت اور نیچر
خارپشت ایک جنگلی جانور ہے، اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتاہے۔مکران کے قدرتی حسن میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ یہاں سمندر، پہاڑ، دریا، صحرا اور میدان ایک دوسرے کے ساتھ ایک لڑی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔خارپشت کو بلوچی زبان میں ”دجوک”اور”جدوک“ کہا جاتاہے۔ حالیہ چند عرصے میں تواتر کے ساتھ بارشیں ہونے کی وجہ سے جب کھیت آباد ہوگئے ہیں اور لہلاتی فصلیں نظر آنے لگے۔تو ایک بار پھر پرندے اور جنگلی جانور نمودار ہورہے ہیں۔
کرونا وائرس اور پسماندہ بلوچستان
رقبے کے لحاظ سے بلوچستان مملکت خداداد کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان کی سرزمین سے نکلنے والی گیس سے ملک بھر کا صنعتی پہیہ چل رہا ہے۔ مگر کوئٹہ کے علاوہ باقی صوبے میں لوگ چولہا جلانے کیلیے اب بھی لکڑیاں استعمال کررہے ہیں۔ سونے اور تانبے کے ذخائر بھی اس پسماندہ صوبے کی قسمت نہیں بدل سکے۔ ریکوڈک اور سیندک بھی اس صوبے کی پسماندگی دور نہ کرسکے۔پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کے نام پر بلوچستان کو دوسرے صوبوں اور چین سے ملانے کیلیے ایک شاہراہ تو بنائی گئی، مگر کراچی کوئٹہ شاہراہ کو ڈبل نہ کیا جاسکا، جہاں سالانہ حادثات کی وجہ سے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بلوچستان کا طویل ساحل جو کہ بین الاقوامی بحری گزرگاہ ہے۔ جبکہ اس پسماندہ صوبے کے بین الاقوامی فضائی روٹ بھی سالانہ ملکی خزانے میں اربوں روپے کا اضافہ کررہے ہیں۔
مکران کا ساحل آبی حیات کے لئے غیر محفوظ
مکران کے حساس ساحلی علاقوں کو ماضی قریب میں آبی حیات کے لئے محفوظ سمجھا جاتا تھا، دنیا میں معدوم ہونے والی کئی اقسام کے آبی مخلوقات مکران کے ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ نایاب نسل کے سبز کچھوؤں کی افزائش نسل کے لئے مکران کے ساحلی علاقے ”دران بیچ“ جیوانی، ”تاک بیچ“ اورماڑہ اور ”ہفتلار جزیرہ“ پسنی کو محفوظ پناہ گاہوں کا درجہ حاصل ہے۔ یہ علاقے مقامی آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے کچھوؤں کے افزائش نسل کے لئے اہم علاقے ہیں۔ اب انہی علاقوں میں نایاب نسل کے سبز کچھوے مردے حالت میں مل رہے ہیں۔
جڈی پسنی
پسنی دریا وردانی یک کوہنیں بندنے ء ْ چہ کدیم ء َ دریا وردادا نشتگ انت۔ کْلانی کارءْ روزگار گوں نیل بومیں زر ءَ ہمگرنچ انت۔پسنی ء ِ شہرءََ? چہ کساس پنچ کلومیٹر دور جڈی ء ِ تیاب انت۔ جڈیء ِ کوہ دامن ءَ انت۔ اے تیابَ ءِ راہ ہمے واستہ جڈی گوش انت کہ جڈی ہمے کوہ ء ِ نام انت۔ پسنی ء ِ لس مہلوک ء ِ واستہ َ پہ سیل ء ْ سواد ء جڈی ء ِ تیاب چہ جنت ء َ ہچ کم نہ انت۔ جڈی ء ِ تیاب ء ِ یک انچے ہم ابرمی ندارگے کہ ادا آؤکیں مردم زند ء ِ سرجمیں اڈ ء ْجنجالاں ء َ بے حال کنت۔