عورت کا پہلا کام پہلی ذمہ داری سنبھلنا سنبھالنا۔ خاندان کے افرادکیساتھ برابر چلنا شوہر کے ساتھ سچی دوستی نبھانا اولاد اور عزت کے لیے سختیاں جھیلنا۔ مدر سری ہویا پدرسری نظام وقار کے ساتھ جینا خوشی اور غممیں خود کو ثابت قدمرکھنا’اعبار ’اعتماد کو مقدم رکھنا۔۔۔ جنس کی تفریق کے بغیر یہ جملے ہر انسان کے لئے مقدم خیال کیے جاتے ہیں۔ انسانی خوبیوں کا تقدس اور احترام آدمیت معآشروں کا روز اول سے وطیرہ رہاہے تاریخ کو ٹتولیے مرد جانے جہاں اپنے کام کاج کے لئے اوزار بنائے تو خواتین نے خوبصورت کشید کاری سے اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے۔ جنگی ماحول میں مرد اور عورت دونوں کا حوصلہ و ہمت مثالی رہا ہے۔
رقبے کے لحاظ سے بلوچستان مملکت خداداد کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ بلوچستان کی سرزمین سے نکلنے والی گیس سے ملک بھر کا صنعتی پہیہ چل رہا ہے۔ مگر کوئٹہ کے علاوہ باقی صوبے میں لوگ چولہا جلانے کیلیے اب بھی لکڑیاں استعمال کررہے ہیں۔ سونے اور تانبے کے ذخائر بھی اس پسماندہ صوبے کی قسمت نہیں بدل سکے۔ ریکوڈک اور سیندک بھی اس صوبے کی پسماندگی دور نہ کرسکے۔پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کے نام پر بلوچستان کو دوسرے صوبوں اور چین سے ملانے کیلیے ایک شاہراہ تو بنائی گئی، مگر کراچی کوئٹہ شاہراہ کو ڈبل نہ کیا جاسکا، جہاں سالانہ حادثات کی وجہ سے ہزاروں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بلوچستان کا طویل ساحل جو کہ بین الاقوامی بحری گزرگاہ ہے۔ جبکہ اس پسماندہ صوبے کے بین الاقوامی فضائی روٹ بھی سالانہ ملکی خزانے میں اربوں روپے کا اضافہ کررہے ہیں۔
مکران کے حساس ساحلی علاقوں کو ماضی قریب میں آبی حیات کے لئے محفوظ سمجھا جاتا تھا، دنیا میں معدوم ہونے والی کئی اقسام کے آبی مخلوقات مکران کے ساحلی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ نایاب نسل کے سبز کچھوؤں کی افزائش نسل کے لئے مکران کے ساحلی علاقے ”دران بیچ“ جیوانی، ”تاک بیچ“ اورماڑہ اور ”ہفتلار جزیرہ“ پسنی کو محفوظ پناہ گاہوں کا درجہ حاصل ہے۔ یہ علاقے مقامی آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے کچھوؤں کے افزائش نسل کے لئے اہم علاقے ہیں۔ اب انہی علاقوں میں نایاب نسل کے سبز کچھوے مردے حالت میں مل رہے ہیں۔
قومی ثقافت کی تشکیل میں ادیب و شاعر سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، قومی احساس کو ابھار نے اور قومی شعور کو بیدار کرنے کی غرض سے یہ تمام لوگ گیتوں، قصوں، کہانیوں اور دیومالاہی تصورات کو تحریر میں لاتے ہیں،اس کے ساتھ ہی ان کی تخلیقات زبان و ادب کو ذر خیز کرتے ہیں۔ زبان کسی معاشرہ کی ذہنی ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس لیے جب تک زبان میں علمی و ادبی و فلسفیانہ موضوعات نہیں آئیں گے اس وقت تک معاشرہ کا ذہنی شعور محدود رہیگا اور جب مقامی زبان میں ادب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی زبان کے معیار کے لیے قوانین و قواعد مرتب کیے جاتے ہیں اور لسانیات کے شعبہ میں ترقی ہوتی ہے۔
یہ 1994 کی بات ہے جب میرے والد سہیل سانگی نے سندھی زبان میں ہفت روزہ “آرسی” کا اجراء کیا تھا، یہ سندھی کا پہلا نیوز میگزین تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے دیرینہ دوست بشیر ملاح بھی تھے جو میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ سیاسی سفر کرچکے تھے، میں نے ابھی صحافت کا کوئی باضابطہ سفر شروع نہیں کیا تھا لیکن اس میگزین کے کچھ انتظامی امور میں دلچسپی لینا شروع کی تھی۔ جب بات آئی کہ بلوچستان کی صورتحال پر کون لکھے گا، تو والد نے بتایا کہ اپنا کامریڈ صدیق بلوچ ہے نا کوئٹہ میں، وہ لکھیں گے۔
انتہائی کٹھن حالات، وسائل کی کمی، مشکل صورتحال میں کس طرح پرسکوں رہ کر کام کرنا، فرائض انجام دینا اور جرات و بیباکی سے سچ عوام تک پہنچانا ہے یہ فن اگر کسی نوجوان صحافی یا مستقبل میں صحافت کے میدان کا انتخاب کرنے والے کسی نوجوان نے سیکھنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ لالہ صدیق بلوچ کی زندگی کا بغور مطالعہ کرے، مشکلات اور ناموافق حالات کی باتیں کرنے والے صحافی اگر اپنی زندگی میں ہی صحافت کے شعبے میں لیجنڈ کا درجہ رکھنے والے لالہ صدیق بلوچ کی جدوجہد سے آگاہی حاصل کرلیں تو پھر شاید ان کے لئے اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے کسی بھی مشکل کی پراوا نہ کرتے ہوئے آگئے بڑھنا ہی مقصد ہوگا۔
صحافت جنکا اوڑھنا بچھو نا،قیا دت میں اور قیا دت کے چناؤ میں خود پسند ہو نا،سچائی کی تلا ش میں سر گرداں رہنا،عقیدت و احترام کے لین دین میں راسخ ہو نا، بد فعل و بد مزاج عنا صر کے لئے چیلنج بننا،پسے ہو ئے عوام کی خد مت میں پیش پیش رہنا،محکوم اقوام کے استحصا ل میں ملو ث افراد و نظام کے خلاف آواز بلند کرنا یہ ہیں لا لہ صد یق بلوچ جو زند گی بھر ان خو بیوں کو ساتھ لے کر چلتے رہے علم کو ہتھیا ر بنا کر ڈٹے رہے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کام کر نے کے لئے کرائم رپو رٹنگ سے پہلے پہل وابستہ ہو ئے ملک کے معتدد اخبار ڈان سے منسلک ہو نے اور بعد میں اپنے اخبارات سند ھ ایکسپر یس،بلو چستان ایکسپر یس اور آزادی تک پا ئے استقلا ل کے ساتھ جم کر لکھتے رہے نوجوانوں کی کردارسازی کر تے رہے ایک قابل اعتبار صحافی کے طورپر نامور رہے۔
لالہ‘ ماما‘ لیاری،بی ایس او اور بزنجو۔یہ بھی بلوچ کے وہ اجزائے ترکیبی ہیں کہ جن کے سوا بلوچ مکمل نہیں ہوتا۔لالہ یا ماما یہ دونوں نام ایک ہی شخص کے لئے مخصوص تھے ٗ وہ صحافی تھے یا حالات نے صحافی بننے پر مجبور کردیاتھا جبکہ ان کی تربیت بی ایس او کے پلیٹ فارم سے سیاسی ورکر کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ بلوچ قوم بھی عجیب قوم ہے یہاں کا فرد اپنا پروفیشن خود نہیں چنتا بلکہ حالات اس سے چنواتے ہیں۔
اکیسویں صدی کا سورج اپنے پہلو میں نت نئی ایجادات لے کر طلوع ہوا اور اس دوران ہونے والی ایجادات اور پہلے سے موجود وسائل میں جدت آنے کے باعث دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ وہ جو ہم ”گلوب“ کی بات کرتے ہیں وہ عملی طور پر متشکل ہوگئی، دنیا سمٹ کر ایک گاؤں میں بدل گئی جہاں کسی بھی شخص تک رسائی ناممکن نہیں، ہونے والی ترقی اور نت نئی ایجادات نے یوں تو ہر شعبے پر اپنے انمٹ نقوش مرتب کئے لیکن صحافت کے شعبے کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی۔
بلوچستان میں زندگی کی مشکلات باقی دنیاسے یکسرمختلف اورمشکل ہیں یہاں ہرشعبہ ہائے زندگی کی اپنی مشکلات اورمراحل ہوتے ہیں لیکن صحافت تواس ریجن میں مشکل اورخطرات سے بالکل بھی خالی نہیں ہے بلوچستان میں صحافت کرناجگرگردے کاکام ہے جہاں خبرچھاپنا موت سے بھی بدتر،نہ چھاپنااس سے بھی خطرناک لیکن بلوچستان میں چندصحافی ہیں جنہوں نے صحافت کوبطورمہذب پیشہ اپنایاجوحقیقت میں صحافتی آداب اورصحافت کی قدرومنزلت کواپنی جان پرکھیل کرتحفظ اورعوام کے مساحل کیلئے ذریعہ نجات بنایا۔