|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2020

لالہ‘ ماما‘ لیاری،بی ایس او اور بزنجو۔یہ بھی بلوچ کے وہ اجزائے ترکیبی ہیں کہ جن کے سوا بلوچ مکمل نہیں ہوتا۔لالہ یا ماما یہ دونوں نام ایک ہی شخص کے لئے مخصوص تھے ٗ وہ صحافی تھے یا حالات نے صحافی بننے پر مجبور کردیاتھا جبکہ ان کی تربیت بی ایس او کے پلیٹ فارم سے سیاسی ورکر کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ بلوچ قوم بھی عجیب قوم ہے یہاں کا فرد اپنا پروفیشن خود نہیں چنتا بلکہ حالات اس سے چنواتے ہیں۔

لیاری سے ابھرتے بی ایس او کے سرگرم رہنماء جوبعد میں میر بزنجو جیسی شخصیت کے پسندیدہ کامریڈ بن گئے اوران کے قریب ہوگئے۔ بزنجو جیسی شخصیت کی قربت حاصل کرنا یوں بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا کہ جن کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا بھی نظریاتی ہوتا ہے۔ایسے میں وہ بخیرٹ، وش آتکے اور اللہ کمک تک کے دورانیہ کے تمام لوازمات نظریاتی طورپر بجالانے میں ہی مطمئن ہوتے ہیں۔

لالہ صدیق جسے ہم ان کے آخری لمحات میں یوں تو ایک صحافی کی حیثیت سے جانتے ہیں لیکن صحافیوں کے بارے میں یہ ریت ہے کہ یہ بہت ہی کنجوس اور چمڑی جائے پھر دمڑی نہ جائے والی صفت رکھتے ہیں لیکن لالہ صدیق داتا صفت انسان تھے۔ صحافت کو سخاوت بنادیا انہوں نے۔ انسانیت کے بارے میں حساس وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

لالہ اس سے قبل نیپ کے اہم رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔نیپ کی جو حکومت بنی اس میں لالہ صدیق میر غوث بخش بزنجو کے پریس سیکرٹری بنے۔چونکہ وہ میر بزنجو کے انتہائی قریب ساتھیوں میں سے تھے تو میر صاحب نے لالہ کو بلا کر اس کی ذمہ داری انہیں سونپی۔لالہ صدیق نے انہیں بلوچستان کی بابت ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات کے بارے میں مشورے دیئے جہاں میر بزنجو نے حکمت عملی بنائی اور ایران سمیت کئی ممالک کے دورے کئے جہاں انہوں نے مستقبل میں بلوچستان کے لئے ہمسایہ ممالک کے ہاں ایک جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔لیکن نیپ کی حکومت بھی تو محض نو ماہ چل سکی جس کی قیمت انہیں حیدرآباد سازش کیس کی صورت میں قید رہ کر چکانی پڑی۔ لالہ صدیق نے بزنجو کی یاری میں حیدرآباد سازش کیس بھی بھگتا۔

کیوں نہ بھگتتے کہ بلوچ تھے اور لیاری کے پرجوش بلوچ تھے۔ بلوچ کیلئے جیل کاپانی پینا گویا آب حیات کی طرح لازم ٹھہرتا ہے۔اور پھر حیدرآباد سازش کیس میں جس بلوچ کا نام آیا وہ گویا غار یار کی طرح امر ہوگئے کہ انہیں وہاں مری، مینگل،بزنجو،شیرو کی صحبت میسرآئی،خوب گپ شپ ہوئی ہوگی۔ایک دوسرے کوسننے کا موقع تو جیل میں ہی ملا ہوگا لالہ صدیق سے جب بھی ملتے تو وہ جیل کی کہانیوں میں سے کوئی ٹکڑا سنا دیتے۔

حیدرآباد سازش کیس سے چھوٹنے کے بعد ہر ایک نے اپنی ”راہ ” لی، کسی نے جیل میں جمہوریت کا سبق پڑھا تو کسی نے شکستہ پہاڑی موروچوں کو مزید پختہ کرنے کی ٹھان لی۔ بہر حال یہ ایسا سکول ثابت ہوا کہ جس کے آخری امتحان کے بعد ہر ایک نے اپنا نتیجہ سنبھالا اور چل دیئے زندگی کا بقیہ حصہ گزارنے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ کسی نے ہار نہیں مانی اور سب کے سب اپنے اپنے ”کاموں ”میں جُت گئے۔

لالہ صدیق نے کراچی میں ڈان جیسے اخبار سے پھراپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا چنانچہ انہوں نے کئی سال ڈان میں صحافتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد کراچی سے اپنے ایک اخبار کا اجراء کیا جس کو کامیابی کیساتھ چلایا۔ لیکن چونکہ سیاست وادب کا مرکز بلوچستان اور بلوچستان کا شہر شال رہا ہے۔لالہ صدیق کی سنگت اور یاردوست شال میں تھے چنانچہ وہ شال منتقل ہوگئے اور یہاں سے بلوچستان ایکسپریس کے نام سے انگریزی اخبار کا اجراء کیا اور کامیابی سے چلایا۔

بعدازاں بلوچستان کے عوام کی ڈیمانڈ پر2000میں اردو اخبار روزنامہ آزادی کااجراء کیا۔لالہ صدیق کا یہ ایک اخبار نہیں تھا بلکہ ایک انقلاب تھا اور اس کی ایک جہت نہیں تھی بلکہ کئی جہتیں تھیں جہاں ایک طرف کوئٹہ سے بلوچ عوام کی آواز بننے والا پہلا اخبار تھا بلکہ اس میں مقامی اخباری صنعت سے وابستہ کارکنوں کو دعوت عام دی گئی کہ وہ آئیں اور کام کریں۔ جہاں اخبارات میں کام کرنا انتہائی مشکل تھا ایک طرف سکھانے کا کوئی رجحان نہیں تھا اور پھر براہوئی بلوچی بولنے والوں کیلئے ویسے بھی اخبارات کے دروازے کم ہی وا ہوتے تھے چنانچہ ایک طرف اخبارات میں کام کرنے والے مقامی نوجوانوں کیلئے اپنا ایک ادارہ عمل میں آگیا۔

دوسری طرف جہاں دوسرے اخبارات میں انتہائی کم تنخواہ دی جاتی تھی وہاں لالہ صدیق نے معقول تنخواہیں مقرر کیں بلکہ ورکروں کے احترام اور عزت نفس کا بھی خیال رکھاجانے لگا۔دلچسپ صورتحال تو اس وقت پیدا ہوگئی جب یہی ورکر جن کیلئے باقی اخبارات میں رپورٹنگ، پروف ریڈنگ اور آپریٹر بننے کے امکانات نا ہونے کے برابر تھے، لالہ صدیق بلوچ نے انہیں نہ صرف ایک ادارہ بنا کر دیابلکہ انہیں لکھنے پر بھی راغب کیا جس سے لکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد سامنے آگئی۔بعدازاں روزنامہ آساپ کا اجراء ہوا وہاں بھی لالہ صدیق بلوچ کے طرز پر ورکروں کی تنخواہوں کا معیار مقر ر کیاگیا۔

دیکھا دیکھی باقی اخبارات جو دہائیوں سے انتہائی کم تنخواہوں پر ورکرز سے کام لیتے تھے انہوں نے بھی تنخواہوں میں اضافہ کیا اور مقامی نوجوانوں کو لکھنے کی پیشکش کی لیکن نواجوانوں کو لکھنے پر راغب کرنے کا سہرا لالہ صدیق بعد ازاں آساپ کو جاتا ہے۔علاوہ ازیں 2003میں روزنامہ انتخاب کا کوئٹہ سے دوبارہ اجرا ء ہوا‘روزنامہ توار کا کراچی سے اجراء بھی ہوچکا تھا۔چنانچہ اخباری صنعت میں گویا ایک انقلاب برپاہو گیا۔

میں نے روزنامہ آزادی سے لکھنا شروع کیا جہاں روزنامہ آزادی فون کیا تو لالہ صدیق نے خود فون اٹھایا جب میں نے لکھنے کی خواہش کا اظہارکیا تو ان کے یہ الفاظ تھے کہ دیر کس بات کی۔ تب میں نے اپنا پہلا آرٹیکل انہیں بھیجا اور وہ چھپ گیا۔جس سے مجھے وہ اعتماد ملا جو میں بیان نہیں کرسکتا۔چنانچہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور میں لکھتا رہا۔لالہ صدیق بلوچ ایک طرف آرٹیکل دیکھتے اور بعد میں تجاویز بھی دیتے جس پر عمل کرتا گیا۔لالہ صدیق ایک حقیقی پروفیشنل صحافی تھے جو اپنے اصولوں پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتے تھے انہوں نے اپنے اخبار کی جو پالیسی بنائی وہ آخرتک چلتی رہی۔

اس کی زندگی میں ایک ڈسپلن تھا وہ صبح سویرے اٹھتے تھے‘ ہر روز شیو بناتے‘کلین شیو کرکے تھری پیس سوٹ پہن کر وہ اسلام آباد کے ایک بیوروکریٹ لگتے لیکن اندر سے روایتی اور جدید بلوچ کا حسین امتزاج لئے ہوئے تھے‘تب ہی تو ماما اور لالہ کے الفاظ انہیں کے لئے مختص تھے۔چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔صبح معمول کے مطابق اپنے ویسپا پر نکلتے اور ایک پروفیشنل صحافی کی طرح اپنے فرائض انجام دیتے‘ پریس کلب کو ٹائم دیتے اور خبریں تلاش کرتے۔میں نے ایک قاری کی حیثیت سے بلوچستان کے اخبارات میں لالہ صدیق جیسی رپورٹنگ نہیں دیکھی۔انتہائی تحقیقی رپورٹ بناتے۔گویا بلوچستان میں حقیقی رپورٹنگ اور خبر کے پیچھے جانے کی روایت لالہ صدیق بلوچ کے ہاں ہی ملتا ہے ان کی پالیسی سنسنی پھیلانے سے گریز اور محض حقیقی خبر پیش کرنا تھا۔

بلوچستان میں بدلتے حالات نے عجیب رخ اختیار کیا، لوگ یہاں سے وہاں گئے، سوچ تبدیل کی، اخبارات کی پالیسیاں تبدیل ہوئیں لیکن لالہ صدیق انتہائی ثابت قدم رہے اور روز اول سے جوپالیسی اپنائی اس پر ڈٹے رہے۔اس دوران کیا نشیب وفراز آئے حتیٰ کہ ان کے اخبار کے دفاترکا گھیراؤ کیاگیا اور وجوہات بتانے سے بھی گریز کیاجاتا رہا لیکن لالہ صدیق ثابت قدم رہے۔

میری ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔روزنامہ آزادی کے دفترجاتے تو وہاں ان سے ملاقات ہوتی پھر کراچی میں دودفعہ ملاقات ہوئی۔انتہائی شفیق انسان تھے انتہائی حساس تھے۔گھر آیا مہمان بغیر کھانا کھائے نہیں جاسکتا تھا، ورکروں کیلئے تو کھانا لازمی قرار دیاتھا۔یقینا روزنامہ آزادی کے بعد بلوچستان میں صحافت کے میدان میں ایک بڑی پیشرفت ہوئی لوگوں کو باور ہوا کہ مقامی لوگ بھی اخبار کا اجراء کرسکتے ہیں۔

بعد میں بیماری کا جو حملہ ہواس کے باوجود اپنے معمولات پریوں عمل کرتے رہے کہ بیماری کو شکست ہوتی رہی۔ انہوں نے جو اصول بنائے تھے ان پر آخر تک عمل پیرا رہے۔ بیٹے کے بقول آخری بار ہسپتال جانے کیلئے معمول کے مطابق صبح سویرے اٹھے خود شیو بنائی اور تھری پیس سوٹ پہنے لیکن ٹائی نہیں باندھ سکے کیونکہ ہاتھوں میں سکت باقی نہیں رہی تھی،وہ ہاتھ جنہوں نے زندگی بھر حق اور صداقت لکھا اوریہ ہاتھ کئی بے آسراسروں پر شفقت سے رکھے گئے۔ ایک شخصیت میں کئی اعلیٰ اوصاف یکجا تھے‘ کبھی بلند آواز سے بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ سے یوں مسکرا کربا ت کرتے تھے کہ انسان کی روح تک خوش ہوجاتی۔
کراچی میں ایک دفعہ گھر پر کھانے پر بلایا تو میں، میرے بڑے بھائی،والد صاحب اور دوست ہمراہ تھے‘ لالہ صدیق صاحب سے ملاقات ہوئی خوب گپ شپ ہوئی‘ نیپ کے قصے‘ اپنے صحافتی سفرکے قصے سناتے رہے اور ہم سنتے رہے۔

وطن سے انتہاء کی محبت رکھنے والے کو ہم نے کھو دیا۔آج انہی کے ہاتھوں سے بنایا ہوا ایک اہم ادارہ بلوچ نوجوانوں کے حوالے ہے جو یہاں آکر کام سیکھتے ہیں،کام کرتے ہیں،اپنا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ یہ وہ بنیادیں ہیں جنہوں نے اپنے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ لالہ صدیق اس عہد کے متاثر کن شخصیت تھے انہوں نے اپنے کام کو اپنی زندگی جانا اور دل لگا کر اپنے کام کیساتھ اخلاص برتا۔