عرصہ دراز سے گروپ بندی کا شکار دنیا کا مقبول ترین کھیل زوال پذیر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور ذمہ دار کون ہیں؟ عہدیدار یا وہ کھلاڑی جو معاشی غرض سے کام کاج چھوڑ کر تعلیم کے بجائے اس کھیل کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔پاکستان عالمی درجہ بندی میں 200سے بھی نیچے ہے، لیکن اس کھیل سے متعلق ڈسٹرکٹ یا فیڈریشن پر عرصہ دراز سے براجمان عہدیداروں کو ٹی وی چینل پر کہتے ہوئے کہ پاکستان میں بے پناہ قابلیت ہے سنتے ہوئے یا دیکھا جا سکتا ہے۔
بہار کا موسم ہے، میں ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا ہوں۔ چڑیوں کی آوازیں کانوں میں رس گول رہی ہیں۔ لیکن یہ سب عارضی ہے کیونکہ ہمارے ارد گرد بے چینی صاف دکھتی ہے، لوگ پریشان ہیں، خوشیاں ان سے روٹھ گئیں ہیں۔ معاشرے میں قیامت کا سا منظر ہے، لوگوں کا ہجوم ہے۔ مختلف ر نگ نسل و مذہب کے لوگ نظر آ رہے ہیں، اُن میں ایک عجیب نفسا نفسی ہے وہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں کوئی حد سے زیادہ امیر تو کوئی حد سے زیادہ غریب، کوئی گاڑیوں میں اے سی لگا کرخوش ہے تو کوئی کچروں کے ڈھیر میں بے سر و سامان پڑا سو رہا ہے، کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں، قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اخلاق اور انسانیت نے گویا اس معاشرے سے منہ موڑ لیا ہے۔ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جو کسی کے راستے آئے گا بے موت مارا جائے گا۔ لوگ اپنے کاموں میں اس قدر محو ہیں کہ ان کا رابطہ دُنیا سے کٹا ہوانظر آ تا ہے۔
دور ِ حاضر میں مہنگائی کسی اژدہا کی طرح اپنا پھن پلائے غریب عوام کی نصیبوں میں کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا ہے، جہاں وہ سانسیں بھی گن گن کر لیتا ہے کہ کہیں اِن کا بھی حساب نہ دینا پڑے، وہ قدم بھی پھونک پھونک کر اُٹھاتا ہے کہ کوئی موچ نہ آجائے اور اِس فاقے کے زمانے میں جہاں گھر کا چولہا مشکل سے جلتا ہے، اسپتال وغیرہ کے چکر نہ کاٹنے پڑیں اورمہینے کا بجٹ ڈسٹرب نہ ہو، لیکن اِیسے میں بھی غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو پڑھا رہے اور نوجوان پارٹ ٹائم نوکریاں کرکے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کررہے ہیں، اِس اُمید پر کہ ایک نہ ایک دن ان کو سرکاری نوکری ملے گی اور باقی کے دن خوشحال گزرینگے۔
لیوس فیگو، ریکارڈ وکا کا، کارلوس پیول، اور نکلس انلکا کا دورہ پاکستان درحقیقت ایک اچھا اقدام تھا مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ دنیا کے مایہ ناز فٹبالر ز جن سے ملنے کے لیے لوگ ترستے تھے ان کے اصل مداحوں کو ان سے ملنے کے لیے آٹھ ہزارروپے کی ٹکٹ کی شرط رکھی گئی جو کہ ایک فٹبالر طبقہ اور فٹبال کے مداحوں کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی جوکہ کامیاب تو ہوئی مگر انتظامیہ سو سے زیادہ لوگ جمع نہ کرسکی جوایک شرمناک بات ہے جس کا ریکارڈو کا کا نے لاہور کے میچ کے بعد ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔
کبھی کبھی آپ کا سامنا ایسے کرداروں سے ہوجاتاہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کو یقین نہیں آتا اور وہ کردار آپ کی آنکھوں کے سامنے ایسے کرامات کا مظاہرہ کرتاہے کہ آپ واقعی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وسیلہ پیدا کرنے میں نہ صرف قدرت رکھتاہے بلکہ جس انسان یا مخلوق کو وہ پیدا کرتاہے اسے زندہ رہنے یا زندگی گزارنے کے لیے عقل اور طریقہ بھی ودیعت کرتاہے جسے سمجھنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہوسکتی۔
ہر ذی شعور انسان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو تبدیلی لا سکتی ہے مگر جس خطے میں تعلیم کا نظام بیٹھ گیا ہو،وہاں تبدیلی کے بجائے معاشرتی بحران جنم لینے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے اور ہم سب بچپن سے اس بحران کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں ایک پالیسی کے تحت آواران کو تعلیمی حوالے سے پسماندہ رکھا گیا اور حال میں جان بوجھ کرتعلیمی نظام کی بہتری کے لیے بنائی گئی پالیسیوں سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ جس کا براہ راست اثر بچوں کی تعلیمی پر پڑ رہا ہے۔
17 سالہ خدیجہ لڑکوں کا روپ دھارے خود موٹر سائیکل چلا کر اپنے کالج پہنچتی ہیں جہاں پھر وہ لڑکوں کا لباس بدل کر کالج کا یونیفارم پہن لیتی ہیں کوئٹہ کے مضافات میں رہنے والی خدیجہ کو یہ بہروپ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر بھرنا پڑتا ہے کیونکہ اُنکے گھرکے پاس کوئی کالج نہیں ہے اُنہیں اس عمل سے کالج میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ کالج کے اساتذہ اُنکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی انقلاب کی کامیابی طلباء یونینز کی جدوجہد اور قربانیوں کا مظہر ہے۔ طلباء معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنکی قلم بندوق سے زیادہ طاقت ور اور خوفناک ہے، طلباء تنظیموں پر نہ صرف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا بلکہ پورے معاشرے کے لوگوں کی نظریں جمی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ یہ طلباء کی وہ گروپ ہے جو سوچنے اور بولنے کے فن سے آشنا ہے۔
لیاری ادبی میلے کے انعقاد سے مجھے دلی مسرت ہوئی ہے۔میلے کے منتظمین بے شک مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے دن دگنی اور رات چوگنی محنت کر کے ایک بڑے میلے کا انعقاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیاری کے بارے میں دانستہ طور پر مفاد پرست حلقوں کی جانب سے ہمیشہ یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ یہ ذہنی طور پر پسماندہ، جاہل اور جرائم پیشہ لوگوں کی بستی ہے اس تاثر کو پھیلانے میں حکمران افسر شاہی اور ان سے منسلک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ اور تو اور ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان خود ریکارڈ پر ہیں کہ گدھا گاڑی چلانے والوں سے کو ئی کیا تو قع رکھ سکتا ہے۔ دراصل اس گھناؤنے پروپیگنڈے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو کراچی بدر کرنا تھا۔
ممتاز کاروباری افراد کے وفود کے ساتھ، انھیں یہ یقین دلانے کے لیے کہ نیب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی حالیہ الگ الگ ملاقاتوں سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو مسلم چیمبر آف کامرس بمبئی کے پہلے سیکرٹری جنرل ایس ایم جمیل نے مجھے بتایا تھا۔ان کے مطابق قائد اعظم نے انھیں کہا کہ وہ مسلمان کارو باری افراد کو پاکستان آنے اور وہاں سرمایہ کاری پر آمادہ کریں۔