اسپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے دو اہم ایشوز بلوچستان اسمبلی کے آگے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنیوالوں پر پولیس لاٹھی چارج کے منفی عمل اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے برطرف ساڑھے تین سو کے قریب ملازمین کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے کیلئے آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری بلوچستان کو اپنے اسپیکر چیمبر میں طلب کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے خواتین اساتذہ پر لاٹھی چارج کے عمل کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لوگ مجبوراً احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں۔ صوبائی حکومت ملازمین کی بحالی سمیت دیگر بروقت اقدامات کر کے ان کی تسلی وتشفی کراتی تو نوبت مظاہروں تک ہر گز نہ آتی۔
صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے بلوچستان میں گوادر شہرکے ارد گرد باڑ لگانے اور بلوچستان اور سندھ کے جزائر کے بارے میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وفاق کے سپرد کرنے کو صوبہ بھر میں نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ ان کا تعلق خالصتاً عوام اور خصوصاً روزگار کے ذرائع کی بندش سے ہے جس کے جواب میں بلوچستان کے طو ل و عرض میں ان دونوں حکومتی فیصلوں کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا۔ یہ فطری عمل بھی ہے کہ جب آپ عوام کے احساسات و جذبات کے بر خلاف حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر منفی فیصلے کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ اس سے عوام میں شدید منفی رد عمل پیدا ہوتا ہے۔
ایک روز قبل میرا کالم شائع ہوا، ارادہ یہ تھا کہ چند دن چھوڑ کر دوسرا کالم لکھوں گا لیکن بلوچستان کے ’’ برننگ ایشوز‘‘ اس قدر ہیں کہ مجھے مجبوراً دوسرے روز قلم اٹھانا پڑا۔ ان ایشوز میں گوادر کو باڑ لگانااور صوبائی حکومت کی جانب سے ایرانی پٹرول کے کاروبار پر پابندی عائد کرتے ہوئے فوری طورپر بیک جنبش قلم احکامات صادر کرنا شامل ہیں، ان دونوں ایشوز پر میں نے ایرانی پٹرول کے کاروبار کی بندش کو اولین ترجیح اور اہم قرار دیتے ہوئے اپنی یہ تحریری لکھ دی کیونکہ یہ ’’ موت سے کھیلنے کا کاروبار ‘‘ کرنے والے ہمارے اپنے بچے جن میںاکثریت طلبا ہیں ۔
بلوچستان ملک کا وہ بد نصیب صوبہ ہے کہ جسے آج کے اس جدید دور میں جدید موٹر وے سڑکیں دینے سے وفاقی حکومتیں انکاری ہیں یہی وجہ ہے کہ اس صوبے کی قومی شاہراہوں پر اموات کی شرح میں گزشتہ چند سالوں سے بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے کیونکہ بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی سنگل ٹریک سڑکوں پر ٹریفک زیادہ ہو چکی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی محکموں خصوصاً ریلوے حکام کی عدم دلچسپی سے بلوچستان کے لئے آنے والی ٹرینوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، ایک آدھ ٹرین کوئٹہ سے کراچی یا لاہور کے لئے چلائی جاتی ہے۔
اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان ہوں یا مریم یا پھر کرونا کو شکست دینے والے بلاول ہوں یا محمود خان یا اختر مینگل کی ویڈیو شرکت یا میاں افتخار کی موجودگی میں اس اہم اجلاس کا تھا سب کو انتظار کیا مریم کے لاہور کے پرجوش استعفوں کے اعلان کی حتمی منظوری پی ڈی ایم دیگی یا اسلام آباد پر پی ڈی ایم کے دھاوا بولنے کا حتمی اعلان کیا جائیگا لگ بھگ پانچ گھنٹے تک سارے سیاسی رہنماؤں نے طویل بحث مباحثوں کیا نواز شریف اور آصف علی زرداری جنکے۔
٭صنفی تشدد کے خلاف 16 دن منانے کی سرگرمی ایک بین الاقوامی مہم ہے جو 1991 میں شروع ہوئی اور ہر سال 25 نومبر سے ، خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے لے کر، 10 دسمبر ، عالمی یوم انسانی حقوق کے دن تک جاری رہتی ہے ، اس مہم میں دنیا بھر کے افراد اور گروہوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کو ختم کرنے کے لئے ہونے والی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالیں یہِ ِ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو چیلنج کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی مہم ہے۔جب تشدد کرنے والوں کو سزانہیں ملتی ، تو یہ عمل معاشرے میں صنفی تشدد کے رویوں کو پروان چڑھاتا ہے۔
کسی بھی قوم کوجانچنے کا بہترین نمونہ اس کا کردار ہوتا ہے بد قسمتی سے آج کل ہماری پوری قوم (چند سو یا ہزار کو چھوڑ کر) مجموعی طورپر اس کی کمی کا شکار ہو گئی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ لیں اس میں اخلاقی انحطاط کو اس قدر پائیں گے کہ ا لامان الحفیظ۔ کردار ہی انسان کے وجود کا وہ اہم جز ہوتا ہے جس سے قوموں کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے آج کل ہم ہر چھوٹی بڑی مثال پر گوروں (انگریزوں) کی بات اپنے دماغ سے نکال کر اس طرح بیان کرتے ہوئے ان کے بارے میں ایسے تعریفی کلمات ادا کرتے ہیں جیسے کہ یہ کلمات صرف ان غیر ملکی گوروں ہی کے لئے ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا وہ خوبصورت اور خوش قسمت صوبہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی سرزمین پر قائم کیا ہے جس کی سرحدیں پڑوسی ممالک سے لگتی ہیں تو اپنے محل وقوع اور وسیع ساحل وسائل کی بدولت یہ صوبہ دیگر صوبوں کی نسبت ملک عزیز کو آمدنی کی صورت میں بہت کچھ دے رہا ہے۔ اس کے خوبصورت ساحل کو جوگڈانی سے گوادر اور جیونی تک سات سو کلو میٹر طویل سمندری رقبہ ہے اس قدر خوبصورت سمندری ساحل اور وسائل کے باوجود اس صوبے کی پسماندگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر آنے والی حکومت نے بلندو بانگ دعویٰ کیے ہر حکمران نے شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کی قسمیں کھائیں۔
کوئٹہ جو کہ بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کہلاتا ہے اس میں ٹریفک کی صورت حال آج اس قدر بگڑچکی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا،پھر مزے کی بات یہ ہے کہ اس بارے ہمارے صوبائی حکمران یا اس سے وابستہ سرکاری افسران کی جانب سے ایسا کوئی بیان دیکھنے کو بھی نہیں مل رہا کہ حکمرانوں نے یا ہماری بیورو کریسی نے اس نازک صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے اقدامات کرنے کی ٹھان لی ہو۔ یقین جانیے کہ آج آپ کوئٹہ سے سریاب کے راستے سبی یا نوشکی مستونگ تک کا سفر کریں ان شہروں کے لئے آج کل دو سے ڈھائی گھنٹے بمشکل لگتے ہیں ان گھنٹوں میں 100کلو میٹر کا سفر طے کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔
آخر کار بلی تھیلے سے باہر آگئی کے مصداق وفاق کی جانب سے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں کے جزائر بارے صدارتی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے ”پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کرکے صوبائی خودمختاری میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام کا مظاہرہ کرکے بلوچستان اور سندھ کی سیاسی جماعتوں سمیت یہاں کے عوام میں شدید بے چینی پیدا کرنے کا سبب پیدا کیا گیا۔ چونکہ یہ ساحلی علاقہ جات صوبوں کی ملکیت ہیں اس سے وفاق کا کوئی تعلق نہیں جبکہ ساحل سمندر سے اندرون سمندر 12ناٹیکل میل بھی صوبائی تصرف میں آتا ہے۔