بلوچستان میں ویسے تو کوئٹہ تا کراچی یک رویہ شاہراہ پر جان لیوا ٹریفک حادثات تقریباً معمول بن چکے ہیں لیکن حالیہ چند برسوں کے دوران دوسری مرتبہ اندوہناک حادثے کی جزوی وجہ ایرانی اسمگل شدہ تیل بنی جس کے بعد صوبائی حکومت نے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔
معاشرے میں جھوٹ نے اپنا وہ مقام بنا لیا ہے کہ سچ کان پکڑ کر رہ جائے۔ نفسیاتی اجزا ء کو ملا کر ایسے ایسے پراڈکٹ تیار کیے جاتے ہیں کہ آدمی دھنگ رہ جائے اور جھوٹ کو سچ ماننے پر مجبور ہو جائے۔ زمینی حقائقکوچھپانے کے لیے مقتدر حلقوں نے جو فارمولہ تیار کیا ہے اس سے المناکیوں، مجبوریوں، لاچاریوں کے بھنور میں پھنسا بلوچستان تعلیم کے میدان میں اپنی ناکامی کا اعتراف تو نہیں کر پا رہا مگر مشاہداتی نگاہوں سے جال جو بچھایا گیا ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو کہانی کھل کر سامنے آتی ہے۔
صوبو ں کو با اختیار بنانے سے پہلے اور صوبوں کو با اختیار بنانے کے بعد دونوں صورتوں میں کچھ محکمے وفاق کے پاس ہیں،ان محکموں کے فنڈز اور دیگر تمام اختیارات کا مالک وفاق ہے اور وفاق کی حیثیت ایک ماں کی سی ہوتی ہے مگر افسوس ماں کا رویہ بعض معاملات میں بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ سوتیلا ہے،این ایچ اے ہو یا کہ سوئی سدرن گیس یہ دونوں محکمے وفاق کے کنٹرول میں ہیں اور بد قسمتی کہہں یا خوش قسمتی کہ سوئی گیس بلوچستان سے نکلتی ہے اور ابتدائی طو رپر ملک کے گیس کی ضروریات اسی گیس سے پوری کی جا رہی تھیں،
لوگ کہتے ہیں کہ شال کبھی ایسے نہیں تھا اب بہت بدل چکا ہے۔ راہ چلتے لوگوں کے چہروں کا تاثرات پڑھنے کی کوشش کریں تو عنوانات سے خالی نظر آتے ہیں۔سوچ کی گھنٹی ٹھن ٹھن کرنے لگتی ہے شال جو کبھی فن سے آشنا تھا اب ایک ناآشنائی کی فضا در آئی ہے۔ نہ ہی تفریحی مقامات، نہ ہی محفلوں کا تصور۔ اجنبی پن لمحوں میں آدمی کو گھیر لیتی ہے۔ دو چار دوست ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں تو بھی سب اپنے اپنے خیالوں میں گم۔ ایک مصور نے پوچھا تھا کہ وہ کہانی کار کہاں ہیں جن کی جادوئی جملوں کو پڑھ کر تصورات جنم لیا کرتے تھے۔ جواباً کہا کہ کہانی کار لاپتہ ہے اور کہانی گمشدہ۔۔
اس وقت ملکی ’غیرجانب دار‘ میڈیا کو دیکھو تو برطانوی جوڑے کے دورہ پاکستان کا چرچا ہے، کچھ اس طرح کی خبریں چل رہی ہیں، ”برطانوی شاہی جوڑے نے فیصل مسجد میں خاموشی سے قران کی تلاوت سنی۔۔۔۔ شاہی جوڑا ائیرپورٹ پہنچ گیا۔۔۔ شہزادی نے لال رنگ کے کپڑے پہنے ہیں۔۔۔۔شہزادہ ولیم نے ایک بچے کے سرپر ہاتھ رکھی“۔ لیکن کوئی گلہ نہیں،کوئی شکوہ نہیں کرو کیونکہ غلام سوچتے ہیں تو اپنی ”غلامانہ“ ذہنی مقدار میں، ملکی میڈیا سمیت مملکت خداداد میں بسنے والوں کو یہ خبر تو معلوم ہونی چاہیے کہ علامہ محمداقبال نے خواب کیوں دیکھا تھا۔۔۔! پھر اسی خواب کو لیکر اُن کے چاہنے والوں نے برصغیر میں ایک الگ ملک کا مطالبہ کس سے کیا؟ اور آج انہی کے آنے پر یہ بے وقوف قوم اتنا خوش کیوں ہے؟ خدا کرے برطانوی شاہی جوڑا جاتے وقت حکومت پاکستان کے لنگر خانے میں کچھ ڈال کر چلا جائے(آمین)۔
خبر کیا ہے؟ صحافتی دانشوروں نے اس کی بے شمار تعریفیں کی ہیں پھر بھی حتمی نتیجے پر پہنچ نہیں پائے اورنہ ہی خبر کا احاطہ کر پائے۔ ایک تعریف جو مشہور ہے ”کتا آدمی کو کاٹ لے خبر نہیں بنتی لیکن اگر آدمی کتے کو کاٹ لے تو وہ خبر ہوتی ہے“۔ اب بھلا آدمی کتے کو کیوں کاٹے۔ اس خبر کی تلاش میں نہ جانے کتنے صحافیوں نے سر کھپائے ایسی خبریں انہیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ جس نے یہ مشہور مقولہ بیان کیا تھا وہ خبر کا مدعا بیان کرنے کے لیے کافی تھا خبر وہ ہو جو چونکا دے اس میں انوکھا اور نیا پن ہو۔
وادی کوئٹہ کے کئی مسائل ہیں جن میں پانی، لوڈشیڈنگ، سڑکوں پر رش انتہائی اہم ہیں۔ آج ہم کوئٹہ کے ٹریفک کے مسئلہ پرنظر ڈالیں گے اور اس کے حل کیلئے کچھ تجاو ز پیش کرینگے۔کوئٹہ شہر 26000کے آبادی کے لئے بنا یا گیا تھا مگر آج اس شہرکی آبادی 30 لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ جس کی وجہ سے رش میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کوئٹہ کی تاریخ کے 70سے 80سالوں میں سڑکوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
میرے گاؤں میں ڈاکٹر تو اپنی جگہ لیڈی ہیلتھ وزٹرز تک دستیاب نہیں۔دورانِ زچگی ایک حاملہ خاتون اپنی چیک اپ نہیں کرا سکتی، نہ ہی کوئی ٹرینڈ دائی ہے جو ڈلیوری کیسز کو ڈیل کر سکے۔ ایسی صورتحال کا سامنا نہ صرف میرا گاؤں بلکہ دیگر قریبی گاؤں بھی کرر ہے ہیں۔ بسا اوقات سوچتا ہوں کہ حالات اپنے آپ تبدیل نہیں ہوتے۔ حالات کو تبدیل کرنے میں ایک وژن کارفرما ہوتا ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسمنٹ اسکینڈل کے بعد طلبا ء تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم ردعمل جنوری 1953 کی ملک گیر طلبا ء تحریک کے دور کی منظر کشی کر رہاہے فرق یہ ہے کہ اس وقت کسی بھی تعلیمی ادارے میں ا س طرح کی حرکت کرنے کا کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔
بلوچستان کے گزشتہ سال کے بجٹ میں سرکاری اسپتالوں کے لئے دوائیاں خریدنے کی مد میں مختص کی گئی رقم کو خرچ ہی نہیں کیا جاسکا۔اس کو صوبائی حکومت کی بے حسی اورنالائقی کہیں یا کہ عوام کی بدقسمتی۔۔لیکن اس سے یہ بات عیاں ہو ہے کہ ہمارے یہاں ادارے کیسے کام کرتے ہیں۔