|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2020

پاکستان میں پہلی بار ایک خصوصی عدالت نے ایک سابق آرمی چیف کو پھانسی پر لٹکانے کی سزا دی۔ آئی ایس پی آرنے اس فیصلہ کے خلاف اپنے رد عمل میں کہا کہ کسی سابق آرمی چیف پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا اور یہ کہ مشرف” ہرگز غدار نہیں ہو سکتے” کیونکہ انھوں نے ملک کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔

انھوں نے نہ صرف جنگیں لڑیں بلکہ وزیر اعظم کی اجازت اور بری فوج یا بحریہ میں اپنے ساتھیوں کو اعتماد میں لیے بغیر کارگل کی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی۔اس جنگ کو خفیہ رکھا گیا مگر یہ راز اس وقت کھلا جب انھوں نے بھارتی ائر فورس کے خلاف تحفظ دینے کے لیے پاکستانی فضائیہ کو شامل کرنے کی کوشش کی۔انھیں بتایا گیا کہ پاکستان یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ جنگ کشمیری مجاہدین لڑ رہے ہیں پھر ائر فورس انھیں کیسے فضائی تحفظ دے سکتی ہے۔

انھوں نے نہ صرف جنگیں لڑیں بلکہ کارگل میں بھی ایک ایسی جنگ شروع کی جس کی منصوبہ بندی ناقص تھی اور پھر اسے رکوانے کے لیے امریکی صدر بل کلنٹن کی مددحاصل کرنا پڑی۔

دوسری بڑی حماقت نئے عبوری آئینی حکم(پی سی او) کے ذریعے،جس نے ان کی بغاوت کو جائز قرار دیا،عدلیہ پر براہ راست حملہ تھا۔پچھلی بغاوتوں کی طرح یہ بھی نظریہ ء ضرورت کے تحت کی گئی، اور یہ راستہ جسٹس منیر کے پہلے بدنام زمانہ فیصلے نے دکھایاجسے بعد میں دوسرے آمروں نے بھی استعمال کیا۔

مشرف نے ظفر علی خان کیس میں اپنی بغاوت کو جائز قرار دلانے کی کوشش کی۔ظفر علی خان نے 1999کی بغاوت کو یہ کہہ کر چیلنج کیا تھا کہ یہ غیر آئینی تھی اور مشرف پارلیمان کو نہیں توڑ سکتے تھے۔

1954 میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ اور غلام محمد کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا حالانکہ بوگرہ کو غلام محمد نے ہی چنا تھا۔ ان کے درمیان1954 کے آئین پر اختلاف تھا۔جب آئین ساز اسمبلی آئین کی تیاری کا کام تقریباً مکمل کر چکی تو غلام محمد نے اسمبلی کو توڑ دیاکیونکہ انھیں وفاقی اکائیوں کو دی جانے والی خود مختاری کی حد سے اتفاق نہیں تھا (یہ مسئلہ آج بھی پاکستان کی آئینی تاریخ کا تعاقب کرتا ہے)۔

غلام محمد کے اس اقدام نے متعدد قانونی تنازعات کو جنم دیا اور مولوی تمیز الدین نے اس فیصلہ کوفیڈرل کورٹ میں چیلنج کر دیا۔وہ اُس وقت اسمبلی کے اسپیکر اور آئین ساز اسمبلی کے صدر تھے۔جسٹس منیر کی سربراہی میں بینچ کی طرف سے دیا جانے والا فیصلہ غلام محمد کے حق میں تھا۔

جب یہ خیال آیا کہ غلام محمد ” نظریہ ء ضرورت” کی آڑ لے کر اپنے حق میں فیصلہ نہیں لے پائیں گے تو دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا۔ یہ پاکستان کی عدلیہ میں بینچ میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ساز باز کا آغاز تھا۔ اس کی تشریح اُس بنیاد کی حیثیت سے کی جا سکتی ہے جس کا سہارا لے کرماو رائے پارلیمان قوتیں پارلیمنٹ اور کابینہ کو توڑ سکتی ہیں۔

غلام محمد مسلسل جسٹس منیر سے رابطے میں تھے۔انھوں نے اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لیے چال چلی اور قومی مفاد کا جواز استعمال کرتے ہوئے جسٹس شہاب الدین کو مشرقی بنگال کا گورنر بننے پر آمادہ کیا تاکہ بینچ کی ساخت کو تبدیل کیا جا سکے۔حامد خان نے اپنی تصنیفThe Constitutional and Political History of Pakistan میں اس بارے میں روشنی ڈالی ہے کہ چالاک گورنر جنرل غلام محمد نے کس طرح اس فیصلے پرجوڑ توڑ کیا۔وہ لکھتے ہیں کہ ” نیک نیت شہاب الدین اس اقدام کے پیچھے دھوکے بازی کو سمجھ نہ پائے اور مبینہ طور پر انھوں نے کہا کہ ایک ایسے معاملہ میں گورنر جنرل کے فیصلہ پر شک کا کوئی جواز نہیں ہے اور انھوں نے نیا عہدہ قبول کر لیا۔اس طرح ایک اور سازش کامیاب ہو گئی۔

جب مولوی تمیز الدین کیس سماعت کے لیے فیڈرل کورٹ کے سامنے آیا تو شہاب الدین اس کورٹ میں شامل نہیں تھے؛اس کیس کی سماعت کے لیے ان کی جگہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایس اے رحمان کو فیڈرل کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔چنانچہ غلام محمد اور جسٹس منیر وفاقی حکومت کے حق میں اکثریت بنانے کے اپنے ارادے میں کامیاب ہو گئے۔”
تاہم جسٹس ایلوین رابرٹ کار نیلیس نے عدالت کے فیصلے سے اختلاف کیا۔انھوں نے یہ دلیل دی کہ پاکستان دولت مشترکہ کے اندر ایک آزاد ملک ہے۔جسٹس منیر کے فیصلے نے پاکستان میں عدلیہ کے کردار کو داغ دار کر دیا اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کا راستہ کھول دیا۔

خصوصی عدالت کی طرف سے مشرف کو پھانسی کی سزا دینے کے حالیہ فیصلہ سے نظریہ ء ضرورت کے غلط استعمال کا دروازہ بالآخر بند ہو گیا ہے۔اگر انھیں 1999 کی بغاوت پر سزا دی جاتی تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔کسی وجہ سے ہی آئین میں آرٹیکل6 شامل کیا گیا تھا ورنہ اس طرح تو کسی بھی وزارت کے ہر محکمے کا سربراہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ایک خاندان ہیں اور انھیں اپنی بد عملیوں پرجوابدہ نہیں ٹھہرانا چاہیئے۔

پاکستان کی عدلیہ نے دانش مندانہ فیصلہ کیا۔پاکستان کی تمام جمہوریت پسند قوتوں کی طرف سے اس فیصلے کو سراہا گیا ہے،ماسوائے پیرا66 کے،جس میں کہا گیا ہے کہ مشرف کو تین دن تک ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔

اس سے معاشرے میں عدم تحمل کی سطح کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ اگر وہ طبعی موت مر جائے تو بھی اس کی لاش کو سر عام لٹکایا جائے۔اس سے پورے میڈیا کا رخ تبدیل ہو گیا۔

ایک اور اچھے فیصلے نے یہ بتا دیا کہ آرمی چیفس کو کس طرح سے ملازمت میں توسیع دی جاتی رہی۔اگرچہ کہ یہ آرمی رول بک کا حصہ نہیں ہے مگر خیال آتا ہے کہ ماضی میں  متعدد آرمی چیفس نے اپنی مدت ملازت میں جو توسیع لی تھی،اگر ان کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جاتا تو نتیجہ کیا ہوتا۔ان ساری توسیع کا کیا قانونی جواز تھا؟
(کالم نگار What’s Wrong with Pakistanکا مصنف ہے،رابطہ کے لیےayazbabar@gmail.com:)