|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2020

وزیراعظم محترم عمران خان نے پیر کے روز اسلام آباد میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کی ترقی کی بڑی وجہ مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے طویل مدتی منصوبہ بندی ہے ہم چین کے تجربات سے استفادہ کر رہے ہیں اور ملک میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر توجہ دے رہے ہیں کسی بھی ملک میں موجودہ وسائل سے تب استفادہ کیا جاسکتا ہے جب وہاں کے عوام پر سرمایہ کاری کی جائے بد قسمتی سے ساٹھ سالوں سے ماضی میں ہمارے ملک میں موجود وسائل اور معیشت کے استعداد کو بروئے کار نہیں لایا گیا جس کے سبب کوئٹہ اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں مسائل درپیش ہیں۔

سی پیک پر بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم فرمایا کہ سی پیک کافائدہ پورے ملک اور خصوصاً بلوچستان کو ہوگا بلوچستان میں خوشحالی کا نیا دورآئیگا گوادر کی ترقی اور مستقبل میں معاشی سبب بننے سے پورا بلوچستان مستفید ہوگا انہوں نے کہا کہ بلوچستان وسائل سے مالا مال صوبہ ہے موجودہ دور حکومت میں بین الاقوامی کمپنیاں بلوچستان کے وسائل کی دریافت میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں معدنی وسائل کی دریافت سے سب سے زیادہ مستفید صوبہ بلوچستان اور صوبے کے عوام ہوں گے میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم کا یہ خطاب بھی ان سابقہ وزراء اعظم صاحبان کی طرح کا ہوگا۔

جواب تک گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کی ترقی کے دعویٰ کر کے اپنی اپنی حکومتوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعویدار رہے اور یہ دعویٰ تا قیامت کرتے رئینگے کیونکہ ان کو جن باتوں کی بریفنگ دی جاتی ہے یا جو خطاب تحریری طور پر ان کے ہاتھ میں پکڑدیا جاتا ہے ہماراے وزراء اعظم صاحبان اپنی باتوں پر مشتمل خطاب فرما دیتے ہیں جہاں سک سی پیک سے بلوچستان کی ترقی کے دعوؤں کی بات ہے گزشتہ کئی سالوں سے جب سے یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

اس کے ثمرات بلوچستان اور بلوچ عوام کو دیکھنا نصیب نہیں ہوئے ہیں اللہ کی شان دیکھئے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب بھی اسی سی پیک سے متعلق یہ بیان یا خطاب کرتے ہوئے ملتے ہیں کہ سی پیک تو بلوچستان سے وابستہ لیکن ترقیاتی کام دیگر صوبوں میں ہو رہے ہیں بلوچستان اس سے محروم ہے ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف گوادر میں منصوبہ کا افتتاح کر رہے تھے تو چاروں وزراء اعلیٰ جن میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کی حیثیت سے اس تقریب میں موجود تھے۔

جب افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا جارہا تھا تو انہیں اس بارے کیا بریفنگ دی گئی تھی کہ انہوں نے اس وقت اس منصوبے کی حمایت کی اور آج جب وہ حکومت کا حصہ نہیں رہے اب انہیں یاد آرہا ہے کہ سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں سے بلوچستان محروم اور دیگر تین صوبے مستفید ہو رہے ہیں جب بی این پی کے سربراہ سرداراختر مینگل بلوچستان کی محرومیوں پر قومی اسمبلی میں موثر طریقہ سے آواز بلند کرتے ہیں تو بلوچستان بھر میں اسے سراہا جاتا ہے لیکن ان کی شخصیت سے چڑ کھانے والی پارٹیاں یا ان کے رہنماء فوراً یہ بیان واضح دیتے ہیں کہ جذباتی نعروں اور تقریروں سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے ان کی اس کدورتوں پر سوائے ماتم کرنے کو اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

کیونکہ جب یہ مخالف سیاستدان خود حکومتوں کا حصہ ہوتے ہیں تو انہیں بلوچستان کے مسائل یاد ہی نہیں رہتے وہ اپنی سیاست چمکانے کیلئے اپنی پارٹی کے محض چند عہدیداروں تک محدود رہتے ہوئے ان کی”جیبوں کی ترقی“تک محدود رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان اور بلوچ عوام آج بھی پسماندگی کا شکار چلے آرہے ہیں موجودہ وزیراعظم سمیت سابقہ وزراء اعلیٰ صاحبان وزرائے اعظم صاحبان محض بلوچستان کی ترقی کے دعویدار چلے آرہے ہیں جبکہ بلوچستان کی سرزمین پر کوئی ترقی نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ گوادر کی ایک طالبہ کو لاہور کی ایک تقریب میں ”خادم اعلیٰ شوباز شریف“کو یہ کہنا پڑا کہ کیا وجہ ہے کہ سی پیک جس کا تعلق ہمارے علاقہ گوادر سے ہے لیکن ہم اس کے ثمرات سے محروم ہیں پختہ سڑکیں پنجاب کی بنتی نظر آتی ہیں جس پر شوباز شریف کو شرمندگی کے مارے ایک قہقہ لگانے کے سوا کچھ نہ سوجی ہمارے حکمران نہ معلوم کن وجوہات کی بناء پر یہ سوچتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام میں تعلیم کی کمی سے شعور میں کمی ہے۔

یہ ہمیں جب چاہئیں ٹھگ لیں لیکن ایسا ہر گز نہیں آج سائنس کی دنیا میں پوری دنیا کے لوگ گلوبل ولیج کے تحت رہ رہے ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے ہر انسان ذہنی پختگی کی منزلیں اسقدر تیزی سے طے کر رہا ہے کہ ایسے انسان کو ٹھگ لینا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں سوئی ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس سے تین صوبوں کے تمام چھوٹے بڑے شہر مستفید ہو رہے ہیں جبکہ ڈیرہ بگٹی اس سے مکمل محروم اور سوئی کے چند ایک پختہ گھروں تک یہ سہولت موجود ہے باقی عوام اس سے سراسر محروم چلے آرہے ہیں۔

یہ سلسلہ 1952ء سے تادم تحریر جاری وساری ہے اس گیس نے ملک کے طول وعرض کے کارخانوں اور فیکٹریوں کو تو سہارا اور منافع دیدیا لیکن افسوس کہ اس صوبے کے مکین یعنی بلوچستان کی 95فیصد آبادی اس سے محروم چلی آرہی ہے سوئی کی ایک تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جو سوشل میڈیا پر بار بار وائرل ہوتی ہے جس میں سوئی کے لوگوں کو اونٹوں پر لکڑی لادی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے ان اونٹوں کے قریب سے سوئی گیس پائپ لانیں گزرتی ہوئی وہاں کے عوام کا منہ چڑتے نظر آتی ہیں کہ کس طرح یہ مقامی لوگ گیس کی سہولت سے محروم اور دیگر لوگ مستفید ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران جب بھی بلوچستان کی ترقی کیلئے بلند وبانگ دعویٰ کرتے ہیں یہاں کے باشعور عوام اس ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں سمجھتے، چاہے وہ گوادر سی پیک ہو یا قلات میں گیس دریافت ہونیکی خوش خبری ہو یہ خبروں کی حد تک تو بلوچستان کے لوگوں کیلئے خوشخبری کے طور پر تو ہوگی۔

لیکن اس سے مستفید ہوتا ان کے نصیب میں نہیں سی پیک کے تحت مغربی روٹ کو گوادر سے سوراب،قلات، کوئٹہ براستہ ژوب، ڈیرہ اسماعیل پہنچانا مقصور تھا لیکن افسوس کہ آج سی پیک کے نام پر دیگر صوبوں میں سی پیک سڑکیں تو اپنی جگہ اوررنج ٹرینوں کا افتتاح ہو رہا ہے حالانکہ میٹرو ٹرینوں کا منصوبہ سی پیک معاہدے میں شامل نہیں لیکن زور آوروں کے آگے کس کی چلتی ہے کہ وہ یہ سوال کرنیکی ان کے گستاخی کر بیٹھے کہ یہ معاہدے میں شامل نہیں تو کس طرح یہ پایہ تکمیل تک پہنچائے جارہے ہیں وزیراعظم عمران خان کا خطاب بھی محض خطاب تک محدود ہوگا جب دیگر سابقہ حکومتوں نے سی پیک سے بلوچستان کے لیے کچھ نہیں کیا تو مستقبل میں ان حکمرانوں سے امیدیں وابستہ رکھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہ ہوگا ایسے میں مجھے روز نامہ آزادی کی ایک خبر بھی یاد آگئی۔

31دسمبر سے اخبار کے صفحہ8پر گو ادر کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس نظر سے گزری جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ گوادر ماسٹر پلان میں مقامی آبادی کے بنیادی حقوق نظر انداز کئے جارہے ہیں ایکسپریس وے کے منصوبے سے متاثر ہونے والے مقامی ماہی گروں کے مطالبات پورے نہیں کئے جارہے ہیں کلانچی پاڑہ کے مکینوں کو جبری طور پر بے دخل کیا جارہا ہے سرکاری رہائشی اسکیمات بارے بھی مقامی آبادیوں کو تحفظات کا سامنا ہے ان رہنماؤں کے مطابق گوادر کی ترقی وتعمیر کے وعدوں کی گونج تو سنائی دیتی ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں گوادر کا نیا ماسٹر پلان بن گیا ہے لیکن اس میں قدیمی آبادیوں کے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے کلانچی پاڑہ کے مکین جبری بے دخلی کے خدشہ میں مبتلا ہیں آئے روز ان کو نوٹس جاری کئے جارہے ہیں حکومت کی سرد مہری اور رویہ کی وجہ سے ماہی گیروں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔