
صدر ٹرمپ نے جنھیں ٹویٹ کرنے کا بہت شوق ہے، افغان طالبان سے مذاکرات کے بارے میں جو پیغام بھیجا اس پر بہت سے لوگوں نے تنقید کی ہے مگر اس کے باوجود یہ مثبت پیغام ہے۔
بابر ایاز | وقتِ اشاعت :
صدر ٹرمپ نے جنھیں ٹویٹ کرنے کا بہت شوق ہے، افغان طالبان سے مذاکرات کے بارے میں جو پیغام بھیجا اس پر بہت سے لوگوں نے تنقید کی ہے مگر اس کے باوجود یہ مثبت پیغام ہے۔
گہرام اسلم بلوچ | وقتِ اشاعت :
کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ ایک ایسا بھی دور تھا جب بلوچستان سیاسی و ترقی پسند ادبی تحریکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور جناح روڈ پر جگہ جگہ کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔اب یہ دکانیں برانڈڈ جوتوں یا کھدر کلاتھ کے اعلیٰ مراکز میں تبدیل ہو چکی ہیں، مگر کبھی کبھی ان بچھڑے ہوئے ترقی پسند رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں تو پھر سے میرے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
بیٹھک میں محفل جمی ہوئی تھی ایک شخص محفل کا مرکز و محور تھا۔ محفل میں بیٹھے دیگرافراد اسے واجہ کے نام سے پکار رہے تھے۔ محفل ختم ہوئی۔ بندہ اٹھ کر چلا گیا۔ان کے چلے جانے کے بعد محفل کے شرکا ء سے دریافت کیا کہ ”واجہ“ کون تھے؟ تو ایک نے بتایا کہ صبا دشتیاری صاحب تھے، ریفرنس لائبریری کے لیے چندہ کرنے آئے ہیں۔
محمود ریاض الدین | وقتِ اشاعت :
1980ء کی دہائی تک کا عرصہ ریڈیوپاکستان کا عہد زریں کہلاتا ہے، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ”پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی“ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پھر چراغوں کی لو مدھم پڑتی چلی گئی۔ بہرحال ریڈیوپاکستان کے مذکورہ عہد زریں میں صوتی دنیا کے افق پرمتعدد درخشاں ستارے نمودار ہوئے اور اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے، انہی میں ایک نمایاں ستارہ ثریاشہاب طویل علالت کے بعد 13ستمبر 2019ء کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون!
اسماء طارق | وقتِ اشاعت :
نام سے اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ آج کی بات کدھر کو جانی ہے۔ جب آپ کو خود بولنا نہ آتا ہو تو پھر آپ دوسروں کو ہی سنتے اور دیکھتے ہیں۔ بس تو یہی میرا بچپن کا مشغلہ ہے چپ کر کے کسی کونے بیٹھ جانا اور لوگوں کو سننا اور دیکھنا اور پھر اس پر سوچ بچار کرکے کوئی حل نکالنے کی کوشش کرنا۔ اس چکر میں کئی ڈائریاں بنا ڈالیں اور کئی صفحات کالے کیے اور اب تک کر رہی ہوں مگر تلاش ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
گزشتہ شب سے ناسازی طبیعت کا شکار ہوں۔ ابھی تک نتیجے پہ نہیں پہنچ پا رہا کہ اس غم جاناں کا آخر علاج کیا ہے۔ حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے گومگو صورتحال کاشکار ہوں کہ بخار گلے کی خرابی کے باعث ہے یا پیٹ کے یا کوئی تیسرا مرض وارد ہو چکا ہے جس سے انجان ہوں۔ وقت اسی کشمکش میں گزار تا چلا جا رہا ہوں کہ دوائیاں پیٹ کی لوں، گلے کی یا بخار کی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو بیک وقت تینوں کی دوائیاں لینی شروع کرتا ہوں۔ خودساختہ علاج سے ہوتا یہ ہے کہ مزید دو بیماریوں سردرد اور ہڈی درد کا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر یہی سوچتا چلا جاتا ہوں کہ آخر اس سب کا انجام کارکیا ہوگا۔۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
کوئٹہ کے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے نظر ایک تیر نما سائن بورڈ پر پڑتا ہے بورڈ پر ”PEMRA“ لکھا ہوا نظر آتا ہے دوست سے پوچھتا ہوں یہ ادارہ صوبے میں کرتا کیا ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے پھر بولنے لگتا ہے”سمجھ تو مجھے بھی نہیں آتا“۔ بہرکیف کام ہو بھی یا نہ ہو ہمیں اب تک اس سے پالا نہیں پڑا۔ اتنا تو ضرور سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کے احکامات سے ہماری روز مرہ زندگی یا یوں کہیے کہ بلوچستان کا حقیقی عکس اور شناخت متاثر ضرور ہوا ہے۔
شبیر رخشانی | وقتِ اشاعت :
بلوچستان جہاں امن و خوشحالی ایک خواب ہے۔ اس خواب کو جن لوگوں نے آنکھوں میں سجائے رکھا، جس کے لیے آواز بلند کی، جسے زیر تحریر لاتے رہے۔تختہ دار پر لٹکائے گئے۔ گولیوں سے چھلنی کیے گئے۔ بم دھماکوں کی زد میں آئے۔ نہ صحافی محفوظ رہا، نہ شاعر، نہ استاد، نہ فنکار۔ صحافت کا شعبہ متاثر ہونا ہی ہونا تھا سو وہ صحافی جو اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے اس کا خاکہ پیش کرتے رہے وہ آواز یں ایک ایک کرکے خاموش کرائی گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان صحافت کا بنجر زمین ثابت ہوا۔
اسماء طارق | وقتِ اشاعت :
میاں گیدڑ، یہ تم کدھر کو آ رہے ہو؟
اسماء طارق | وقتِ اشاعت :
بابا کیسے ہیں آپ! امید ہے آپ اللہ میاں کے پاس خیریت سے ہونگے۔ گھر میں سب آپ کو بہت یاد کرتے ہیں،امی کچھ کہتی نہیں ہیں مگر میں جانتی ہوں وہ بھی آپ کو بہت یاد کرتی ہیں چپکے چپکے روتی ہیں۔آپا تو بہانہ ڈھونڈتی ہے آپ کی باتیں کرنے کا اور منا وہ تو آپ کے انتظار میں روز دروازے پر کھڑا رہتا ہے امی نے کئی بار منع کیا کہ آپ نہیں آئیں گے مگر وہ نہیں سنتا کسی کی بہت ضدی ہے، دادی کہتی ہیں باپ پر گیا ہے۔