گزشتہ شب سے ناسازی طبیعت کا شکار ہوں۔ ابھی تک نتیجے پہ نہیں پہنچ پا رہا کہ اس غم جاناں کا آخر علاج کیا ہے۔ حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے گومگو صورتحال کاشکار ہوں کہ بخار گلے کی خرابی کے باعث ہے یا پیٹ کے یا کوئی تیسرا مرض وارد ہو چکا ہے جس سے انجان ہوں۔ وقت اسی کشمکش میں گزار تا چلا جا رہا ہوں کہ دوائیاں پیٹ کی لوں، گلے کی یا بخار کی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تو بیک وقت تینوں کی دوائیاں لینی شروع کرتا ہوں۔ خودساختہ علاج سے ہوتا یہ ہے کہ مزید دو بیماریوں سردرد اور ہڈی درد کا اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ پھر یہی سوچتا چلا جاتا ہوں کہ آخر اس سب کا انجام کارکیا ہوگا۔۔
کوئٹہ کے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے نظر ایک تیر نما سائن بورڈ پر پڑتا ہے بورڈ پر ”PEMRA“ لکھا ہوا نظر آتا ہے دوست سے پوچھتا ہوں یہ ادارہ صوبے میں کرتا کیا ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے پھر بولنے لگتا ہے”سمجھ تو مجھے بھی نہیں آتا“۔ بہرکیف کام ہو بھی یا نہ ہو ہمیں اب تک اس سے پالا نہیں پڑا۔ اتنا تو ضرور سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کے احکامات سے ہماری روز مرہ زندگی یا یوں کہیے کہ بلوچستان کا حقیقی عکس اور شناخت متاثر ضرور ہوا ہے۔
بلوچستان جہاں امن و خوشحالی ایک خواب ہے۔ اس خواب کو جن لوگوں نے آنکھوں میں سجائے رکھا، جس کے لیے آواز بلند کی، جسے زیر تحریر لاتے رہے۔تختہ دار پر لٹکائے گئے۔ گولیوں سے چھلنی کیے گئے۔ بم دھماکوں کی زد میں آئے۔ نہ صحافی محفوظ رہا، نہ شاعر، نہ استاد، نہ فنکار۔ صحافت کا شعبہ متاثر ہونا ہی ہونا تھا سو وہ صحافی جو اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے اس کا خاکہ پیش کرتے رہے وہ آواز یں ایک ایک کرکے خاموش کرائی گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان صحافت کا بنجر زمین ثابت ہوا۔
بابا کیسے ہیں آپ! امید ہے آپ اللہ میاں کے پاس خیریت سے ہونگے۔ گھر میں سب آپ کو بہت یاد کرتے ہیں،امی کچھ کہتی نہیں ہیں مگر میں جانتی ہوں وہ بھی آپ کو بہت یاد کرتی ہیں چپکے چپکے روتی ہیں۔آپا تو بہانہ ڈھونڈتی ہے آپ کی باتیں کرنے کا اور منا وہ تو آپ کے انتظار میں روز دروازے پر کھڑا رہتا ہے امی نے کئی بار منع کیا کہ آپ نہیں آئیں گے مگر وہ نہیں سنتا کسی کی بہت ضدی ہے، دادی کہتی ہیں باپ پر گیا ہے۔
عید کی آمد آمد ہے کوئٹہ کی تمام تر رونقیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ ملازم پیشہ افراد گھروں کا رخ کر رہے ہیں کوئٹہ کی سڑکیں سنسان مگر سکھ کا سانس لیتی دکھائی دے رہی ہیں تصور سے کہیں زیادہ یہ شہر خالی خالی سا لگ رہا ہے۔ شہرِ کوئٹہ سے نکل جانے کا سوچ رہا ہوں کہاں کا رخ کیا جائے ذہن میں کئی عکس نمودار ہوتے ہیں زیارت کا خیال آتا ہے تو سب چیزیں منجمد ہوجاتی ہیں اور دماغ فیصلے کو قبول کرتا ہے کل عید ہے سو زیارت کی زیارت کے لیے رختِ سفر باندھتا ہوں۔
عید کی آمد آمد ہے کوئٹہ کی تمام تر رونقیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ ملازم پیشہ افراد گھروں کا رخ کر رہے ہیں کوئٹہ کی سڑکیں سنسان مگر سکھ کا سانس لیتی دکھائی دے رہی ہیں تصور سے کہیں زیادہ یہ شہر خالی خالی سا لگ رہا ہے۔ شہرِ کوئٹہ سے نکل جانے کا سوچ رہا ہوں کہاں کا رخ کیا جائے ذہن میں کئی عکس نمودار ہوتے ہیں زیارت کا خیال آتا ہے تو سب چیزیں منجمد ہوجاتی ہیں اور دماغ فیصلے کو قبول کرتا ہے کل عید ہے سو زیارت کی زیارت کے لیے رختِ سفر باندھتا ہوں۔
ایک زمانہ تھا جو گزر گیا وہ زمانہ تھا بچپن کا، کرکٹ اور ریڈیو کا۔کرکٹ اور ریڈیو کا بھوت ایسے سوار ہوا کہ زندگی ان کے بغیر ادھورا ہی محسوس ہوتا تھا، غنیمت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مصروفیات نے دونوں سے جان چھڑائی ورنہ تو آج بھی جھکڑ کر رہ جاتے مگر یقین جانیں دونوں آج بھی میری پسندیدہ انتخاب کا حصہ ہیں۔ محفلوں میں جب کبھی ریڈیو اور کرکٹ زیر بحث آتے ہیں تو میں ضرور اس بحث کا حصہ بن جاتا ہوں یادیں ایسی کہ مٹنے کا نام نہ لیں۔ کرکٹ کھیلتے اور شوق سے سنا کرتے تھے۔ کھیلنے کے لیے گراؤنڈ ہوا کرتے تھے اور سننے کے لیے رواں تبصرے۔
14اگست آیا اور چلا گیا۔ عید آئی اور چلی گئی۔ جانے والوں کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ جانے والوں کی یادیں جاتے جاتے ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں۔ اب سوچتا ہوں جانے والوں کی یاد میں وہ کون کون سے لمحات کرید کر آپ کے سامنے لاؤں جن کے ساتھ خوشگوار لمحات جڑے ہوئے ہیں جنہیں یاد کرکے محظوظ ہوا جائے اور انہیں بیان کیا جائے۔
ایک زمانہ تھا جو گزر گیا وہ زمانہ تھا بچپن کا، کرکٹ اور ریڈیو کا۔کرکٹ اور ریڈیو کا بھوت ایسے سوار ہوا کہ زندگی ان کے بغیر ادھورا ہی محسوس ہوتا تھا، غنیمت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مصروفیات نے دونوں سے جان چھڑائی ورنہ تو آج بھی جھکڑ کر رہ جاتے مگر یقین جانیں دونوں آج بھی میری پسندیدہ انتخاب کا حصہ ہیں۔ محفلوں میں جب کبھی ریڈیو اور کرکٹ زیر بحث آتے ہیں۔