پاکستان کی علاقائی معیشتوں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں اور اگر کچھ موجود ہیں بھی تو وہ ادھوری اور نا مکمل ہیں جن پر انحصار کرنا مشکل ہے۔حال ہی میں شائع ہونے والی کتابThe Economy of Modren Sindh: Opportunities Lost and Lessons for the Future اس ضمن میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سندھ کی جدید معیشت کے بارے میں نئی معلومات کے ساتھ یہ کتاب تین مصنفین نے مشترکہ پر لکھی ہے جن میں ڈاکٹر عشرت حسین، سندھ یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم اعجاز قریشی اور محقق ندیم حسین شامل ہیں۔ڈاکٹر عشرت حسین نے سندھ کی معیشت پر پہلی کتاب اُس وقت تحریر کی تھی جب وہ عالمی بینک کے ساتھ وابستہ ہونے سے قبل سندھ حکومت کے لیے کام کر رہے تھے۔
صوبائی حکومت نے محکمہ تعلیم کی گریڈ 17کی 2120 اور گریڈ 5تا 9کی 9423خالی آسامیوں کا اعلان کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بلوچستان حکومت نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں نیک نیتی سے کام لے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ بشمول کابینہ کے دیگر اراکین یہ بات بارہا دہرا چکے ہیں کہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے محکمہِ تعلیم میں بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے روزگار کی فراہمی کے حوالے سے حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ مگر یہاں ایک بات جو عموماً تمام اقدامات کو ہوا میں اڑانے کا کام کرتی ہے وہ یہی ہے کہ محکمہ تعلیم حصولِ علم کے بجائے روزگار کا ذریعہ کیوں؟
کہا جاتا ہے کہ جب ایڈیسن نے بلب بنانا چاہا تو 999 کوششیں ناکام گئیں اور 1000 ویں دفعہ بن گیا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے 999 ناکام طریقوں کے بعد 1000ویں بار صحیح بلب بنایا اور وہ کامیاب طریقہ ایجاد کیا جس سے بلب بنایا جاسکتا ہے تو ایڈیسن نے کہا نہیں میں نے ناکام نہیں بلکے 999 وہ طریقے ایجاد کیے ہیں جن سے بلب نہیں بنایا جاسکتا اور 1000 ویں بار وہ طریقہ ایجاد کیا جس سے بلب بنایا جاسکتا ہے اور وہ طریقہ تبھی ملا جب میں 999 وہ طریقے ڈھونڈ چکا تھا جن سے بلب نہیں بنایا جا سکتا۔
پاکستان میں آزادی صحافت کی صورت حال کا اندازہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ(آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل سے حامد میر کے اس سوال سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو انٹرویو کرنے اور ان کے خلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے الزامات کا جواب حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے حامد میر کو یہ اجازت نہیں دی۔
10ہزار نفوس پر مشتمل ٹکری ولیج ماڑی پور کراچی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ بلوچ آبادی پر مشتمل علاقہ ہے۔ ذریعہ معاش کا انحصار ماہی گیری یا کمپنیوں کی ملازمت ہے۔ علاقے میں پانی کا بحران ہے۔صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں شرحِ ناخواندگی بہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کراچی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی یہ بلوچستان کا دیہی علاقہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں کے نوجوان تعلیمی اداروں تک عدم رسائی کے سبب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور مجبوراً اپنے آباؤاجداد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ماہی گیری کا شعبہ اختیار کرتے ہیں یا کمپنیوں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔علاقے سے آج تک نہ کوئی ڈاکٹر پیدا ہوا، نہ کوئی وکیل یا استاد۔
کوئٹہ کی آبادی بڑھ رہی ہے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے محکمہ بہبود آبادی بے بس نظر آتی ہے۔ ادارہ بے بس کیوں ہے اور ناکامی کے وجوہات کیا ہیں خدا جانے۔ کوئٹہ کی زمینیں رہائشی اسکیموں میں بدل رہی ہیں۔ 1998کی مردم شماری کے مطابق کوئٹہ کی آبادی 759941 تھی۔ 2017 میں یہ آبادی 2275699ہوگئی ہے۔ اب اس آبادی کو کنٹرول کرنا یا سنبھالنا حکومت کے بس سے باہر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
مزدوروں کا عالمی دن شہدائے شکاگو کے واقعے کو 134سال گزر چکے ہیں۔ ہر سال اس کی برسی کو پوری دنیا کے محنت کش بلاتفریق رنگ، نسل اور مذہب کے پورے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ کیونکہ شکاگو کے شہیدوں نے 18گھنٹے کے اوقات کار کو آٹھ گھنٹے میں بدلنے کے لیے امریکہ کے شہر شکاگو میں آواز بلند کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ آٹھ گھنٹے کام کریں گے، آٹھ گھنٹے آرام کریں گے اور آٹھ گھنٹہ اپنی فیملی کو دیں گے۔
کہتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے، ہم 72 سالوں سے صرف صبر ہی کر رہے ہیں. تبدیلی کا نعرہ سن کر پوری قوم نے دل ہی دل میں عمران کو نیا پاکستان کا مطلب پیرس کی طرح بناتے دیکھا. جب سورج نکلے گا تو دنیا چمکے گی۔ اسی اْمید کو لیکر عام عوام نے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور نتیجے میں وہ لوگ سامنے آنے لگے جن کی حکومتیں گزشتہ دور میں جمہوریت کی پامالی میں مصروف تھیں. عمران خان سے اْمیدیں لگائے ہْوئے تھے کہ تبدیلی کا نعرہ لگا رہے ضرور تبدیلی کو ترجیح دیں گے مگر افسوس.. تبدیلی تو آئی کیوں نہیں ہے۔
بلوچستان کی تقدیر ایسی ہے یا اس کے ساتھ ایسا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے کہ بلوچستان ہمیشہ بری خبروں کی زد میں رہتا ہے۔ کسی دن کوئی اچھی خبر مل جائے تو اگلے دن ہی کوئی بری خبر اچھی خبر کو کھا جاتا ہے اس طرح ایک بار پھر مایوسی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ایک طویل خشک سالی کے بعد جب بادلوں نے برسانا شروع کیا تو برستے ہی چلے گئے۔ بلوچستان والوں نے جتنا مانگا تھا ان کی توقعات سے سو گنا زیادہ عطا ہوا۔
وزیر اعظم عمران خان نے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خارجہ پالیسی کے معاملہ میں وہ اور فوج ایک صفحہ پر ہیں،حال ہی میں کہا کہ مودی کو ووٹ پاکستان کے حق میں ہو گا۔ان کے اس بیان کی منطق یہ تھی کہ بھارت میں صرف دائیں بازو کی قوم پرست پارٹی ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کر سکتی ہے ۔