احتساب کا ڈھول

| وقتِ اشاعت :  


میرے سامنے اس وقت ایک تصویر آویزاں ہے۔آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے اور دبنگ اسٹائل میں کھڑا یہ شخص کسی فلم کا ہیرو لگ رہا ہے۔ تصویر کے اردگر نظر دوڑاتا ہوں تو آس پاس کھڑے باادب افراد کو دیکھ کر پھر ذہن میں ولن کاخیال آتا ہے ۔ تصویر کے نیچے کیپشن پڑھتا ہوں تو لکھا ہوا نظر آتا ہے’’ سابق مشیر خزانہ خالد لانگو سیکرٹریٹ میں خالق آباد اور قلات کے عوام کے مسائل سن رہے ہیں‘‘۔ کیپشن پڑھتے ہی خیالات گھیرنا شروع کرتے ہیں اور سوالات گرد ڈیرہ جمالیتے ہیں۔ 



زنانہ وارڈ سے مردانہ وارڈ کا سفر

| وقتِ اشاعت :  


’’صاحب! مجھے یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ آپ کو زنانہ وارڈ سے نکال کر مردانہ وار ڈ میں منتقل کر دوں‘‘۔کیڈٹس کی ٹریننگ کے پہلے دن ان کے ٹریننگ انچارج نے کہا۔ یہ بات سن کر مجھے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب تھوڑا سا موجودہ نظام تعلیم پر غور کیا تو پتہ چلا کہ آجکل کی سکول ایجوکیشن میں بچوں اور بچیوں کو پڑھانے کے لیے زیادہ تر خواتین اساتذہ کو رکھا جاتا ہے۔ان اساتذہ کی تعلیم وتربیت کے باعث بچوں میں فیصلہ کرنے کی قوت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔اگر دیکھا جائے تو بچیوں کے لیئے تو یہ چیز کافی حد تک قابل قبول ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت خواتین کی زیر نگرانی ہو جائے لیکن اگر لڑکوں کی تعلیم و تربیت بھی خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی ہو تو ان کے اندر بہت سی کمزوریا ں رہ جاتی ہیں۔ 



امن پرستی اور وطن پرستی

| وقتِ اشاعت :  


پلوامہ اٹیک کے کئی دنوں تک بھارت جنگ کی دھمکیاں دیتا رہا مگر کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا یہاں تک کہ بدھ کے دن بھارت کے طیارے لائن آف کنٹرول کو کراس نہیں کر لیتے ہیں ،جس کے بعد تشویش بڑھ جاتی ہے اور پاکستان کے بہادر جوان ان کو نیست و نابود کر دیتے ہیں ۔ اب سب کہنا شروع کر دیتے ہیں ابھی جنگ ہوئی ابھی ہوئی اور ابھی ہوئی ، ہر جگہ انٹرنیٹ ہو ، ٹی وی سکرین ہو یا موبائل فون ہو ہر جگہ ماحول گرم ہے ہر کوئی جنگ جنگ کرنے لگا ہوا تھا ۔ ہم لوگ یونیورسٹی میں تھے جب خبریں گردش زدہ عام تھیں، دل گھبرا رہا تھا ، زبان سے بس یہی نکلتا تھا خدا خیر کرے۔۔۔ آزاد کشمیر کے ساتھی زیادہ پریشانی میں تھے ،ان کے تو علاقے بھی خالی کرا لیے گئے تھے۔



رنگ تماشا

| وقتِ اشاعت :  


ستمبر 1939کو وارسا کے مقامی ریڈیو اسٹیشن پر جب جرمن حملہ ہوتا ہے تو ریڈیو اسٹیشن میں بیٹھا نوجوان پیانو بجا رہا ہوتا ہے۔ تمام عملہ جا چکا ہوتا ہے مگر پیانو بجانے میں مگن نوجوان کو دھماکہ، دھماکہ نہیں لگتا انگلیاں کی بورڈ پہ اس وقت تک چلتی رہتی ہیں جب تک دھماکہ اسٹیشن کی شیشوں کو توڑتا ہوا اسے زخمی نہیں کرتا۔ پولینڈ کا رہائشی نوجوان ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ 



ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کون؟

| وقتِ اشاعت :  


احمد کی عمر کم وبیش دس سال ہوگی جب اس نے والد سے چوری چھُپے موٹر سائیکل چلانا سیکھ لیا تھا۔ بائیک چلانے کا اس کو جنون تھا۔ جونہی موقع ملتا وہ گھر سے موٹر سائیکل لیتا اور یہ جا وہ جا۔پہلے پہل تو اس کی حد محلے کا پارک تھا۔ بس بات اگلے محلے تک جا پہنچی۔ چند دن بعد ہی اس نے بائیک مین روڈ پر چلانی شروع کر دی۔وہ بائیک اتنی تیز رفتاری سے چلاتا تھا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چند لمحوں میں پہنچ جاتا تھا۔ اور بڑے فخر سے یہ کارنامہ اپنے دوستوں کو بتا تا تھا۔ 



خودداری سوال کرتی ہے

| وقتِ اشاعت :  


عجب غضب کی کہانیاں جنم لیتی ہیں ایسی کہانیاں بے سر و پا معاشرے میں گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ مگر خودداری کے ہاتھوں مجبور یہ کہانیاں کسی کے سامنے سوال نہیں کرتیں بلکہ خودداری ان سے سوال کرتی رہتی ہے سوال در سوال کرتی رہتی ہے مگر انسان ہے کہ مجبور اپنی فطرت اور حالات کے آگے کبھی گھٹنے ٹیک ہی دیتی ہے۔ بس پھر کیا ہے کہ خودداری سوال کرنا چھوڑ دیتی ہے آدمی خودداری سے سوال کرنا شروع کر دیتا ہے۔یہ سوال وہ سوال مگر جواب گمشدہِ خاک۔ کہاں تلاش کریں۔ 



سعودی ولی عہد کا دورہ ء پاکستان

| وقتِ اشاعت :  


وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ،دونوں کی تعلقات عامہ (پی آر) کی ٹیموں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دو روزہ دورہ ء پاکستان کی کامیابی کے کریڈٹ کا دعویٰ کیا ہے،جس سے ملک میں سول ملٹری توازن کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر میاں نواز شریف وزیر اعظم ہوتے تو شایدخارجہ پالیسی کی کامیابی پر اعزاز کی ایسی حصے داری ممکن نہ ہوتی۔



تعلیمی بوٹی پر چٹخارہ دار مصالحوں کا تجربہ

| وقتِ اشاعت :  


میرا دوست کہتا ہے کہ آدمی کو کبھی بھی ایک خوراک ہضم نہیں ہوتی وہ خوراک بدلتا رہتا ہے۔ کبھی گوشت تو کبھی سبزی، کبھی دال چاول وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ تو اچھا ہی ہے کہ پانی کوئی ذائقہ نہیں رکھتا ورنہ آدمی بوقت ضرورت اسے تبدیل کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا۔



حمل کلمتی کی بے بسی

| وقتِ اشاعت :  


کہتے ہیں کہ بچہ جب تک روئے نہیں ماں اسے دودھ نہیں پلاتی۔ حالانکہ ماں کو بخوبی پتہ ہوتا ہے کہ بچہ کب سیرِ شکم ہوگا اور کب خالی پیٹ۔ بچہ جب بڑا ہو جائے تو اس کے چھوٹے موٹے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں کچھ پورے ہوتے ہیں کچھ سنی سن سنی کردی جاتی ہیں۔ کچھ بچے خاموشی اختیار کرتے ہیں اور کچھ بچے مار پیٹ کر تے ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناراض ہو کر چلے جاتے ہیں۔ بچے اور گھر والوں کے درمیان انا کا مسئلہ آجاتا ہے نہ گھر والے بچے کو مناتے ہیں اورنہ ہی بچہ مان کر واپس آجاتا ہے ۔



بلدیاتی نظام اور صوبائی حکومت

| وقتِ اشاعت :  


بلدیاتی نظام جمہوریت کی استحکام و مضبوطی کیلئے بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے اسے نچلی سطح پر فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگی۔اس نظام میں عوام کو جمہوری حق رائے دہی استعمال کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔خصوصاً اس نظام کے توسط سے عوام کی تمام تر بنیادی و عوامی اور ضروری و اجتماعی مسائل نہ صرف حل کئے جاتے ہیں۔ بلکہ انہیں بنیادی سہولیات عوامی امنگوں کے مطابق فراہم کیے جاتے ہیں۔