|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2019

میرے سامنے اس وقت ایک تصویر آویزاں ہے۔آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے اور دبنگ اسٹائل میں کھڑا یہ شخص کسی فلم کا ہیرو لگ رہا ہے۔ تصویر کے اردگر نظر دوڑاتا ہوں تو آس پاس کھڑے باادب افراد کو دیکھ کر پھر ذہن میں ولن کاخیال آتا ہے ۔ تصویر کے نیچے کیپشن پڑھتا ہوں تو لکھا ہوا نظر آتا ہے’’ سابق مشیر خزانہ خالد لانگو سیکرٹریٹ میں خالق آباد اور قلات کے عوام کے مسائل سن رہے ہیں‘‘۔ کیپشن پڑھتے ہی خیالات گھیرنا شروع کرتے ہیں اور سوالات گرد ڈیرہ جمالیتے ہیں۔ 

وہی خالد لانگو جسے نیب کرپشن کیس میں ہتھکڑیاں پہنا چکا تھا جس کا صحافتی اور عدالتی ٹرائل کیا جا رہا تھا۔۔ ہاں ہاں یہ وہی خالد لانگو ہیں جس کے پاس ڈاکٹر مالک دورِ حکومت میں مشیرِ خزانہ کا قلمدان تھا۔ اچھا اچھا یہ وہی خالد لانگو ہیں جنہیں ضمانت سے قبل ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا جا چکا تھا ہاں ہاں یہ وہی خالد لانگو ہیں۔ تو کیا ہوا اس ٹرائل کا کوئی نتیجہ سامنے آیا۔ لوٹا ہوا خزانہ واپس ہوا۔

گیم شوکا خالق کون تھا آخر یہ خاکہ کس لیے تیار کیا گیا تھاکون سراغ لگا پایا۔ کہانی میں کس کو اِن کرنا ہے کس کو آؤٹ،تخلیق کار سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ خالد لانگو کی جگہ ضیا لانگو کو لایا جاتا ہے۔ خالق آباد جو کل تک نیشنل پارٹی کے جھنڈوں سے رنگین تھاسوتیلے باپ کے جھنڈوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ 

ضیا لانگو صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت جاتے ہیں تو خالد لانگو کا وہ دستخط کام آتا ہے جو اس نے نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف قدوس بزنجو کی جانب سے جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر ثبت کی تھی۔پہلے انہیں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کی وزارت سونپی جاتی ہے پھر محکمہ تبدیل کیا جاتا ہے انہیں وزارتِ داخلہ اور پی ڈی ایم اے کا اہمْ قلمدان سونپا جاتا ہے۔ کہانی جاری ہے ٹوسٹ اور کلائمیکس آتے رہیں گے۔

نیب کب بنا ذرا یاد کیجیے۔ دماغ پر زور دیجیے۔ مشرف دورِ حکومت میں نا۔۔ مشرف دور کی شروعات کیسے ہوئی وہ تو میں اور آپ جانتے ہی ہیں۔ جنگل کا بادشاہ شیر ہوتا ہے شیر انڈہ دے یا بچہ، سب نے لومڑی کی طرح اس بات کا اعتراف ہی کر لیا ہے۔ بیک وقت صدارت بھی کرتا رہا اور با وردی بن کر حکمرانی کا تاج بھی۔ سیاستدانوں کو تہہ و بالا کرنے کے لیے نیب آرڈیننس متعارف کروایا۔ جس کو چاہا سزا دی جسے چاہا سیڑھی فراہم کی۔۔ یہ سلسلہ کل بھی چل رہا تھا آج بھی جاری ہے۔

مجھ سمیت ہر عام آدمی آج تک اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ خالد لانگو کیس کا آخر ہوا کیا۔جس کہانی کا آغاز ہوا ہوآخر اس نے انجام تو پانا ہی ہے۔ ایک بار میر بزن بزنجو سے ایک شخص نے سوال کیا تھا کہ میر صاحب! بلوچستان کی سڑکیں بن کیوں نہیں پاتیں۔ تو بزنجو ہنس کر کہہ گئے تھے کاغذات کے پلندوں میں تمام سڑکیں پختہ ہیں اب بدقسمتی ان سڑکوں کی ہے کہ ان کے چہرے سیاہی سے محروم ہیں۔

بلوچستان میں بدقسمتی کی جتنی داستانیں رقم ہوئیں ان داستانوں کو رقم کرنے کے لیے تاریخ دان دستیاب ہی نہیں آئے بلوچستان میں بات جب پسماندگی کی آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی میں سرداروں کا ہاتھ ہے۔ اب بھلا پوچھا جائے کونسے سردار۔۔ وہی سردار جن کے سروں پر دستِ شفقت اسٹیبلشمنٹ کی ہی ہوتی ہے ریاست کی ہوتی ہے۔ 

یہ وہی سردار ہیں جن کو الیکشن میں عوام نہیں اسٹیبلشمنٹ جتواتی ہے یا کرپشن کا پیسہ۔ وہی سردار جو اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے باپ جیسی پارٹی کو دوام بخشتے ہیں۔ اگر پسماندگی کے ذمہ دار یہی سردار و نواب ہیں جو ہر حکومت میں شامل ہو کر کرپشن کی نئی داستانیں رقم کرتے ہیں تو کیا یہ سب کچھ چوری چھپے کر رہے ہیں۔ سب عیاں تو ہی ہے۔ آپ کے پاس نیب ہے۔ آپ کا عدالتی نظام ہے۔پکڑ دھکڑ کے لیے پوری فورس موجود ہے۔ تو دیر کس بات کی۔ پکڑئیے سب کو۔ پورے کا پورا حساب لے لیجیے جو ان سے نکل آئے تو وہ بلوچستان کے مفلوق الحال عوام پر خرچ کیجیے۔ ان کے بچاؤ کے لیے کوئی نہیں آئے گا جس طرح خالد لانگو کی گرفتاری کے وقت کوئی نہیں آیا تھا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کابینہ اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالت پچھلی حکومتوں کی کرپشن کی سزا موجودہ حکومت کو نہ دے۔ موجودہ حکومت کو کام کرنے دے۔ جو مجرم ہیں انہیں سزا دے۔نیب تو گیا کام سے۔ سب کو پتہ ہے نیب کا دائرہ کار کہاں تک ہے اور کیوں ہے۔ اب بچا کونسا ادارہ ہے جو کرپشن کی غضب بھری کہانیوں پر کام کرے اور ان عناصر کو کیفرکردار تک پہنچائے جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 

اب اگر کوئی آواران چلا جائے اور وہاں کی حالتِ زار دیکھے تو دیکھتے ہی کرپشن کا ایک وسیع خاکہ خود بخود اس کے ذہن پر نقش کر جائے گا ۔آواران کی یہ حالت کس نے بنائی اس کا بجٹ کب کہاں کس نے خرچ کیا۔ اس کی چھان بین کون کرے۔ بجائے چھان بین کرتے ۔ جو حاکم عرصہ دراز سے اس علاقے پر مسلط ہیں انہی کو دوبارہ مسلط کیاجاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے طوفانی بارشوں کے بعد آواران سے ہی خبریں آرہی تھیں کہ مالار ڈیم سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے۔ 

میں نے مالار میں موجود ایک شخص سے خبر سے متعلق استفسار کیا تو کہنے لگے کہ مالار میں ایسا کوئی ڈیم بنا ہی نہیں ہے جو ٹوٹ جائے۔ اب خدا جانے خبر چلانے کا مقصد کیا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خبر کرپشن کی ایک اور داستان پر پردہ رکھنے اور ہاتھ صاف کرنے کے لیے چلائی گئی تھی۔ اب بھلا کون تحقیق کرے حقائق سامنے لائے ۔ 

احتساب کے نام پر نیب کا ڈھول اتنا پیٹا جا چکا ہے کہ آواز بمشکل سنائی دیتی ہے۔اب نئے سُر چھیڑنے کی ضرورت ہے۔ تحقیقات اور احتساب کے نام پر جتنے ادارے قائم کیے گئے ان سے کام لیا گیا کرپشن کی جڑوں نے انہیں بھی اپنے شکنجے میں لے لیا۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ نیب کی تحقیقات ہو ہی جائے۔۔ سوچتا ہوں کہ اگر کرپشن کی جڑوں نے انہیں بانہوں میں لے لیا تو کیا ہوگا۔