|

وقتِ اشاعت :   March 2 – 2019

ستمبر 1939کو وارسا کے مقامی ریڈیو اسٹیشن پر جب جرمن حملہ ہوتا ہے تو ریڈیو اسٹیشن میں بیٹھا نوجوان پیانو بجا رہا ہوتا ہے۔ تمام عملہ جا چکا ہوتا ہے مگر پیانو بجانے میں مگن نوجوان کو دھماکہ، دھماکہ نہیں لگتا انگلیاں کی بورڈ پہ اس وقت تک چلتی رہتی ہیں جب تک دھماکہ اسٹیشن کی شیشوں کو توڑتا ہوا اسے زخمی نہیں کرتا۔ پولینڈ کا رہائشی نوجوان ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ 

جنگ کی فضا میں دل دہلادینے والے واقعات پیش آتے ہیں نوجوان اپنے خاندان سے بچھڑتا ہے اپنے ساتھیوں کو جرمن فوج کے ہاتھوں مرتا ہوا دیکھتا ہے بچوں کو بھوک سے مرتا ہوا دیکھتا ہے۔ جو چیز اسے زندہ رکھتی ہے وہ ہے پیانو سے اس کی محبت۔ ایک آرٹسٹ کا فن جنگ سے متاثر ضرور ہوتا ہے مگر فن اس کے دل میں اپنی بقا قائم رکھتا ہے۔

جنگ جہاں موت کا منظرپیش کرتا ہے وہیں اس کا فن اسے زندگی سے قریب تر کر دیتا ہے اور مرنے نہیں دیتا جہاں بم و بارود تمام امیدوں کو شکستہ خوردہ حالت میں لا کر چھوڑ دیتے ہیں وہیں پیانو بجانے والا دورانِ جنگ سروں کو چھیڑ کر ہوا کو پتوں سے کھیلنے پر مجبور کر دیتا ہے تو کبھی آسمان سے برف کو گرنے پر۔ جہاں سُر سنگیت ساتھ چھوڑ دیتا ہے تو فنکار کی انگلیاں بغیر کی بورڈ کے سروں کو خاموشی میں بکھیرنا شروع کر دیتی ہیں۔ 

جنگ جہاں عمارتوں کو ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل اور انسانوں کے لاش اور ارمانوں کا خون کر دیتا ہے وہیں پیانسٹ اپنے فن سے زندگی کو گلے لگاتا ہے۔ فن کا یہ سفر جرمن فوج کی تباہ کن کاروائی کے ختم ہوجانے اور ان کی واپسی کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ 2002کو بننے والی اس فلم کا نام “The Pianist” ہے ۔جو جنگِ عظیم دوئم کی تباہ کاریوں کے گرد ایک نوجوان کی سرگزشت کو دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔

جنگِ عظیم دوئم پر بننے والی ایک اور فلم ’’ لائف از بیوٹی فل‘‘ یعنی زندگی خوبصورت ہے۔ یقیناًزندگی بہت خوبصورت ہے اور جنگوں کے دوران اس کی کشش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جہاں زندگی اور انسانوں سے محبت کرنے والے انسان ہی ان جنگوں کو جیتنے کا ہنر رکھتے ہیں۔

ورنہ تو جنگوں میں صرف جنگجو سالاروں کا ذکر ہوتا ہے اور وہ جو جنگوں کے دوران زندگیاں بچاتے ہیں جنگوں کے دوران ہمت، حوصلہ بڑھانے اور ہنسانے کا کام کرتے ہیں وہ کیا ہوتے ہیں۔ جس طرح زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں اسی طرح خود ہی خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ فلم بھی ایک ایسے خاندان پر بنائی گئی ہے جو دوران جنگ قیدی بن جاتی ہے۔ ماں باپ اور بیٹا ۔۔ گو کہ فلم میں بے شمار کردار موجود ہیں مگر پوری فلم انہی تینوں کے گرد گھومتی ہے۔ 

جنگی قیدیوں سے کس طرح سلوک کیا جاتا ہے انہیں کہاں اور کس حال میں رکھا جاتا ہے اس کی منظر کشی اس فلم میں جا بجا کی گئی ہے مگر فلم کو حسن بخشنے کا کردار والد کا ہے جو قیدی ہوتے ہوئے بھی اپنا وہی فن دکھاتا ہے جو قید سے پہلے دکھایا کرتا تھا اور اپنے بیٹے اور دیگر قیدیوں کو یہ محسوس ہونے نہیں دیتا کہ وہ بطور قیدیززندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ زندگی کی آخری سانس لینے سے قبل وہ جس انداز میں ایکٹنگ کرکے اپنے بیٹے کو مطمئن کرتا ہے وہ سین قابلِ دید ہے۔۔

بلوچستان جہاں گزشتہ دو دہائیوں سے جنگ و جدل کا سماں رہا۔ جنگی حالات نے لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا تباہی کا منظر پیش کیا۔ تباہی کے آثار ہر جگہ نظر آئے۔ لوگوں نے اپنے پیاروں کا کھونے کا غم تاحیات سینے سے لگا لیا۔مگر آرٹ زندہ رہا آرٹسٹوں نے فن سے ناطہ نہیں توڑا۔ ایک فنکار ہمارے پیارے شرجیل بلوچ ہیں۔

ایک حقیقی آرٹسٹ۔۔ کہانی میں جان کس طرح ڈالنی ہے کس فریم میں اسے ڈالنا ہیفن بخوبی جانتے ہیں۔عجب کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ نہ جانے کیا سوجھا کہ آبائی علاقہ مچھ میں انہوں نے ’’رنگ تماشا‘‘ شروع کیا۔ آپ بھی حیران ہوں گے کہ آخر یہ رنگ تماشا ہے کیا۔۔ سانس تو لینے دیجیے بتاتا ہوں۔۔

مجھے بھی نہیں تھا معلوم ۔۔ سو جاننے کے لیے یہی سوال ہم نے شرجیل کے سامنے رکھا تو کہنے لگے کہ مچھ جو کسی زمانے میں ہنسی خوشی کا گہوارا ہوا کرتا تھا۔ لوگ جن کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھرتی تھیں۔ اب ایک زمانہ ہوا کہ وہ مسکراہٹیں ان کے چہروں سے غائب ہوتی چلی گئیں اب نہ وہ محفلیں سجتی ہیں نہ وہ قہقہے بلند ہوتے ہیں تو سوچا کیوں نہ رنگ تماشا کریں۔ جب آئیڈیا دوستوں کے ساتھ شیئر کیا انہوں نے بہت سراہا۔۔ جب مچھ کے در و دیوار کے کانوں میں یہ آواز پہنچی کہ کیوں نہ رنگ تماشا شروع کریں تو مچھ کے در و دیوار کھل اٹھے اور یوں ہم نے شروع کیا رنگ تماشا۔۔

رنگ تماشا کرنے کے لیے اس نے بڑے بڑے آرٹسٹ مدعو نہیں کیے۔ رنگوں سے کھیلنے کے لیے اس نے بچوں کا انتخاب کیا۔ کام کا آغاز انہوں نے سیکنڈری اسکول جلال آباد مچھ سے کیا۔ رنگ سے امن ہے محبت ہے زندگی ہے۔۔ رنگ تماشا دیواروں پر اپنا جادو بکھیرتا چلا گیا اور بچے رنگوں سے کھیلتے گئے۔ آخر اسکول کے بچے ہی کیوں؟ کہنے لگے کہ ہم جو کام کرتے ہیں اسے اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

بچے جو کام کرتے ہیں اسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ رنگ تماشا مچھ تک محدود نہ ہو وہ یہ رنگ تماشا بلوچستان کے کونے کونے تک لے جانے چاہتے ہیں۔بلوچستان میں ہر قسم کے رنگ موجود ہیں۔ پہاڑ ہیں وادیاں ہیں سبزہ زار ہے جنگل ہیں جنگلی حیات ہے مٹی کے ہزاروں رنگ ہیں انہی رنگوں میں نئے رنگ بھرے جائیں تو کتنا خوبصورت لگے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ رنگ تماشا ضرور دیکھنا چاہیں گے۔ ہاں نا۔۔ تو کیوں نہ مچھ کا رخ کریں۔۔ جہاں رنگ تماشا آپ کا منتظر ہے۔۔

آؤ اک کھیل کھیلیں ہم
رنگوں سے کھیل کھیلیں ہم