|

وقتِ اشاعت :   March 10 – 2019

وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ کشیدگی حالیہ کشیدگی پر جس طرح قابو پایا ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کوٹ لکھپت جیل کے اپنے کمرے میں اس پر ضرور حیرت کا اظہار کر تے ہوں گے ۔اس وجہ سے نہیں کہ وہ قومی سلامتی کی پالیسی میں اس یکسر تبدیلی کے خلاف ہیں بلکہ اس لیے کہ انھوں نے امن کے وہ اعزازات حاصل کرنا چاہے تھے جن کی اب عمران خان پر بارش ہو رہی ہے ۔

اگر نوز شریف نے بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو غیر مشروط طور پر رہا کر دیا ہوتا تو نیوز روم کے تمام مفتی ان پر غداری کا لیبل لگا دیتے۔جب نواز شریف نے غیر ریاستی ادا کاروں کو انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مدد پر تنقید کی تو ان کے اور ان کی صاحبزادی کے خلاف مذموم مہم شروع کر دی گئی ،کیونکہ اُس وقت 58(2)(B) کا غیر جمہوری ہتھیار جو90 کی دہائی میں استعمال کیا جاتا رہادستیاب نہیں تھا۔اس لیے اب کی بارانھیں سیاست سے باہر کرنے کے لیے عدالتی فعالیت کو استعمال کیا گیا۔یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف پر اعتماد نہیں کرتی تھی اور سفارتی عالمی کپ جیتنے کے لیے اپنا با اعتمادعمران خان چاہتی تھی۔ صرف ونگ کمانڈر ابھی نندن کو رہا کرنے کا جذبہ ء خیر سگالی ہی نہیں بلکہ دوسرے ایسے اشارے بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے۔

مولانا مسعود اظہر کے بھائی اور بیٹے کی حالیہ گرفتاری ،جو بھارت کو خوش کر سکتی ہے ، کی نواز شریف کی حکومت میں توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔اسی طرح سے جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیموں کے خلاف جو مثبت قدم اٹھایا گیا ہے اس کی بھی نواز شریف کے دور میں امید نہیں کی جا سکتی تھی۔جیش ِ محمد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جو بالکل بے لگام ہو چکی ہے۔یہ نہ صرف مشرف پر قاتلانہ حملے میں ملوث تھی بلکہ اس نے دو مرتبہ حکومت پاکستان کی امن کوششوں کو تباہ کیا۔پہلی بار اُس وقت جب اس نے عین ایسے موقع پر جب مودی کے اچانک دورہ ء لاہور سے امن کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوا تھا،پٹھان کوٹ پر حملہ کیا ۔اور اب جبکہ کرتار پور بارڈر کھلنے سے پاکستان کی اچھی ساکھ قائم ہوئی تھی اس نے پلوامہ میں حملہ کر دیا۔بھارت کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ غیر ریاستی اداکاروں کو تلاش کرنے کی مہم جوئی سے دونوں طرف کی امن کوششیں تباہ ہوں گی۔اس سے ان بھارتی انتہا پسندوں کو بھی طاقت ملتی ہے جو تحمل سے عاری ہو رہے ہیں اور شدت پسند لابی کی مدد کر رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے امن پسندمحسوس کرتے ہیں کہ مودی انتخابات جیتنے کے لیے پاکستان کے خلاف جنگ کے جذبات ابھار رہے ہیں۔

عدم برداشت انتہا پسندی کا نتیجہ ہے ۔مذہبی انتہا پسندی ہو یا حد سے زیادہ قوم پرستی،کسی نظریہ یا نسلی برتری کے بارے میں انتہا پسندانہ سوچ دوسروں کے بارے میں عدم برداشت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔بھارت میں ان دنوں عدم برداشت میں اضافہ حیران کن نہیں ہے۔2014 کی طرح آج بھی مودی کی انتخابی مہم میں پاکستان کے خلاف اشتعال پھیلانے کے پرانے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ انتہا پسندانہ سوچ اور فرقہ وارانہ سیاست نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے غیر متحمل مزاج کارکنوں کے لیے گنجائش پید ا کی ہے۔مودی مذہبی انتہا پسند قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی تقریروں میں غیرضروری طور پر پاکستان کا ذکر کرتے ہیں۔

مجھے2014 میں بھارت کے مختلف فورمز پر تین بار اظہار خیال کا موقع ملاجہاں میں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ 1970 کے بعد پاکستان کے تمام انتخابات میں کسی بھی بڑے رہنما نے بھارت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔میں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان نے شروع دن سے مذہب کو سیاست کے ساتھ جوڑ کر غلطی کی اور اب وہ اس مہلک سیاسی ترکیب کو استعمال کرنے کی بھاری قیمت چکا رہا ہے ۔میری رائے تھی کہ بھارت کو ہماری غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیئے کیونکہ سیاست میں مذہب کو داخل کرنے سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھے گی۔مگر میں اس بارے میں ہمیشہ پر امید رہا ہوں کہ مودی کی ہندوتوا سے آگے ایک سیکولر انڈیا بھی ہے جیسا کہ حافظ سعید کے جہاد سے آگے ایک امن پسند پاکستان ہے۔

آج پوری دنیا میں سیکولر قوتیں بھارت میں عدم تحمل کی بڑھتی ہوئی لہر کو تشویش سے دیکھ رہی ہیں۔بھارت کے اندر سیکولر قوتیں متحد ہو رہی ہیں اور اُس عدم برداشت کے خلاف لڑ رہی ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف سے پیدا کی گئی ہے ان کا مقصدہندوتوا اقدار کو فروغ دینا ہے جو ان سیکولر اقدار کے منافی ہیں جن کی بھارت کو 21 ویں صدی کی جمہوریہ کی طرف لے جانے کی ضرورت ہے۔

رومیلا ٹھاپر،ارون دھتی رائے جیسے نامی گرامی دانش وروں اور متعدد دیگر فن کاروں نے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دینے پر بھارتی حکومت کی کھل کر مذمت کی ہے۔بہاراور حال ہی میں مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک اور دوسری ریاستوں میں سیکولر قوتوں کی کامیابی بھی اس امر کو ظاہر کرتی ہے کہ یہاں کے عوام نے الیکشن کے دوران مودی کی ہندوتوااور انتہا پسند قوم پرستانہ تقریروں کو مسترد کر دیا ہے۔مودی کے نظریاتی ساتھی جس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ سیکیولر ازم سیاسی عیاشی نہیں بلکہ بھارت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک ہی پتھر سے تراشا ہوا سماج نہیں ہے۔

آئیے مذہب کے لحاظ سے بھارت کی آبادی پر ایک نظر ڈالتے ہیں؛ 2001 کی افراد شماری کے مطابق1,028ملین کی آبادی میں80.5 فیصد کا تعلق ہندو مذہب سے ہے، 13.4 فیصد مسلمان ،2.3 فیصد عیسائی،1.9 فیصد سکھ،0.80 فیصدبودھ اور0.4 فیصد جین مت کے ماننے والے ہیں۔اس کے علاوہ چھ ملین سے زیادہ ایسے لوگ بتائے گئے جو قبائلی مذاہب سمیت دیگر ایسے مذاہب اور عقائد کے پیروکار ہیں جو چھ بڑے مذاہب سے مختلف ہیں۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بھارت میں آبادی کی اکثریت ہندو دھرم ماننے والوں کی ہے۔

اگر چہ بھارت کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 14 فیصد سے زیادہ ہے مگر بہت سی ریاستوں میں ان کی فیصد آبادی قومی آبادی میں ان کے حصے سے متجاوز ہے۔آسام میں مسلم آبادی کا فیصد 30.9 ،مغربی بنگال میں25.2 ، کیرالہ میں 24.7 اتر پردیش میں 18.5 ، بہار میں 16.5 اور جموں و کشمیر میں 64 فیصد سے زیادہ ہے ۔انڈین یونین کے علاقے کے ایک چھوٹے سے جزیرے Lakshadweep ،جہاں کی آبادی میں90 فیصد مسلمان ہیں، سے لے کر کشمیر تک مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس کے علاوہ تین شمال مشرقی ریاستوں ناگا لینڈ، میزو رام اور میگھالیہ میں عیسائیت ایک بڑا مذہب بن کر ابھری ہے ۔منی پور جیسی دیگر ریاستوں اور یونین علاقوں میں ان کی تعداد34 فیصد،گوا میں 26.7 فیصد،انڈیمان اور نکوبار جزائر میں 21.7 فیصد،کیرالہ میں 19.0 فیصداور ارونا چل پردیش میں18.7 فیصد ہے ۔اس طرح کل آبادی میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے۔اسی طرح پنجاب سکھ ازم کا مضبوط گڑھ ہے۔پنجاب کی سکھ آبادی ملک میں کل سکھ آبادی کے75 فیصد سے زیادہ ہے ۔

بھارتی دلت لوگوں(جو نام دلت لیڈر کی طرف سے شیڈولڈ کاسٹ کے لیے اختیار کیا گیا ہے)کی آبادی ملی جلی ہے جو ایسے گروپوں پر مشتمل ہیں جو مختلف زبانیں بولتے ہیں اور مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں۔سرکاری طور پر ان کی تشریح شیڈولڈ کاسٹ کے طور پر کی گئی ہے ،یہ لوگ 16.6 فیصد ہیں اور آٹھ فیصد شیڈولڈ قبائل کے ساتھ مل کر یہ بھارت کی کل آبادی کا25 فیصد بنتے ہیں۔اگر چہ بھارتی سرکاری دستاویزات میں دلتوں یا شیڈولڈ کاسٹ کو ہندوقرار دیا گیا ہے مگر بھارتی آئین کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیکر سے لے کر Why ٰ I am not Hindu کے مصنف Kancha Ilaiah تک دلت دانش وروں نے واضح طور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں اور یہاں تک کہ وہ جن دیوتاؤں کی پوجا کرتے ہیں وہ برہمن ازم سے نہیں ہیں۔

” میں ہندو پیدا نہیں ہوا تھا اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ میرے والدین کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ہندو تھے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں مسلمان، بودھ، سکھ یا پارسی کی حیثیت سے پیدا ہوا تھا۔میرے والدین کی ایک ہی شناخت تھی اور یہ ان کی کاسٹ تھی:وہ Kurumass تھے۔ان کے تہوار مقامی تھے،ان کے دیوتا، دیویاں مقامی تھیں اور بعض اوقات وہ صرف ایک ہی گاؤں تک مخصوص ہوا کرتے تھے” 

(Kancha.2006) اب اگر ہم20 فیصد غیر ہندو آبادی اور25 فیصد دلتوں اور دیگر کو ایک طرف کر دیں تو بھارت کی45 فیصد آبادی کو برہمن ازم/ ہندوتوا کے خانے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔اس لیے آر ایس ایس، وشوا ہندو پریشد،بی جے پی اور بجرنگ دل کے ہندو جہاد کا ورثہ مقبول بیانیہ نہیں ہے۔بی جے پی گزشتہ انتخابات میں بے دریغ اخراجات کے باوجود صرف31 فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔بی جے پی کے تمام ووٹروں نے اس کے سیکولر دشمن ایجنڈے کی حمایت نہیں کی بلکہ اس کے معاشی پروگرام کو ووٹ دیا تھا۔بی جے پی کی کامیابی کی وجہ اس سے قبل کے پانچ سالوں میں کانگریس کی خراب کارکردگی بھی تھی۔

بھارت کے دور اندیش لیڈر جواہر لعل نہرو نے اس امر پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے کہ بھارت کا آئین سیکولر ہو گا ملک کے تین سو شہروں اور دیہات کا دورہ کیا تھا۔نہرو نے سیکولر ازم کے بارے میں کہا تھا:” سیکولر ازم کا مطلب مذہب اور ضمیرکی آزادی ہے بشمول ان لوگوں کی آزادی کے جن کا کوئی مذہب نہیں ہو گا۔اس کا مطلب اس حد تک تمام مذاہب کی آزادی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے معاملات یا ہماری ریاست کے بنیادی تصور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں ” ۔

سیکولر اصولوں کے داعی مانی شنکر آئر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ” بھارتی سیکولر ازم مذہب دشمن یا غیر مذہبی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہمارے زیادہ تر لوگ بہت زیادہ مذہبی ہیں۔عیسائیت کے بر عکس جہاں سے یہ لفظ ایجاد ہوا ،بھارت میں سیکولرازم کا مطلب ریاست کو مذہبی اتھارٹی کے مقابل لانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب عقیدے کے معاملات کو ذاتی حدود میں رکھنااور ریاست کے معاملات کو سرکاری حدود میں رکھنا ہے” ۔