صحافت کا شعبہ بطور پیشہ اپنانے والے سبھی صحافی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کس قدر مشکل اوردقت طلب ہے بالخصوص وہ علاقے اور خطے جو مختلف وجوہات کی بناء پر تنازعات میں گھرے رہتے ہیں یا جنہیں حرف عام میں’’ کنفلکٹ زون ‘‘ کہاجاتا ہے ان علاقوں میں صحافت جان ہتھیلی پر رکھ کر کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو اس شعبے کاکام رکا نہ اس شعبے میںآنے والوں کی راہ روکی جاسکی۔
بلوچستان سے فریادیں روز اول کی طرح آج بھی جاری ہیں۔ایک ہفتہ پہلے اندھیری رات میں آئین کی جیت کا جشن منانے والے آج ذرا رخ اس طرف بھی کرلیں کہ ان کو معلوم پڑے کہ بلوچستان میں سوئے ہوئے آئین کو جگانے والا کوئی نہیں ہے۔نظریہ ضرورت دفن، امریکی سازش جیسے تماشوں سے گزرتے ہوئے ایک نئے حکمران کوپاکستان کے اقتدار کا کمان سو نپا گیا ہے۔
بلوچستان کے قبائلی روایات اور رسم و رواج کی وجہ سے آج بھی خواتین مشکلات اور پسماندگی کا شکار ہیں ۔قبائلی نظام اور سخت معاشرتی و قبائلی قوائد کی وجہ سے خواتین کی تعلیمی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ 2017 کے ایک سروے کے مطابق بلوچستان میں گرلز ایجوکیشن 23فیصد ہے جبکہ کوئٹہ کے علاوہ یہ شرح مزید کم ہے بلوچستان میں قبائلی جھگڑے بھی خواتین کو مشکلات سے دوچار کرتے آ رہے ہیں جبکہ نصیرآباد ڈویژن جو کہ سندھ سے ملحقہ علاقہ ہے جہاں سیاہ کاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کے فرسودہ واقعات زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ان واقعات میں اکثر خواتین ہی لقمہ اجل بنتی ہیں اور موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں
گزشتہ دنوں پاک افغان سرحد کے قریب واقع بلوچستان کے ضلع چاغی میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے زمیاد (ایرانی ساختہ گاڑی جسے مقامی سطح پر زمباد کہتے ہیں) چلانے والا ڈرائیور حمید اللہ سر پر گولی لگنے سے جان کی بازی ہار گیا۔ بد قسمت حمید اللہ ان ہزاروں غریب ڈرائیوروں میں سے ایک تھا جو ریاست کی روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کی وجہ سے روزانہ اپنی جان پر کھیل کر گھر کا چولھا جلانے کے لیے بارڈر پر نام نہاد ’غیرقانونی‘ کاروبار کرنے پر مجبور ہیں۔
زمباد کی گاڑیاں ایران سے تیل لانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ آپ زمیاد کی گاڑیوں کو مکران ڈویڑن کی ہر سڑک پر دیکھ سکتے ہیں، زمیاد کی گاڑیوں کی تعداد لاتعداد ہے۔ زور دینے والی بات یہ ہے کہ زمیاد ڈرائیور لاپرواہ ہیں اور گاڑی چلانا نہیں جانتے حتیٰ کہ وہ ٹریفک کے قواعد و ضوابط سے بے خبر ہیں۔
جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعتیں یا تو قدامت پسندی اور یا پروگیسیو پسندی کے تحت اپنے منشور پر عمل کرتی ہیں۔ لہٰذا سوسائٹی بھی قدامت پسندی اور ترقی پسندی کے نظریے میں تقسیم ہو جاتی ہے، اور انتخاب کے موقع پر یہ نظریاتی کشمکش پوری طرح ابھر کرسامنے آتی ہے۔
سیاسی طور پر پختگی ایک رہنما کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ نومولود سیاست دان اگر سچا ہو، دیانت دار ہو تو بھی اس کا عوام میں اثر و رسوخ بڑ ھانے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتاہے تا آنکہ لوگوں میں اعتماد بحال ہو۔ اسی درمیان ایک لیڈر کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے کہ وہ لوگوں میں اپنا لوہا منوائے۔ عمران نیازی اسی پروسیس سے گزرکر ایک اچھا لیڈر بن سکتے تھے لیکن اس نے اپنے سیاسی کیئریر کے آغاز میں ہی میں اپنا نام آئین شکنوں کے ساتھ لکھوادیا۔
اسی ایک ہی سفر نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ اس چھوٹی سی فانی زندگی میں احساس کے بغیر جینا اور پھر یوں مرنا جیسے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ایک انسان کو زیب نہیں دیتا۔
جمہوریت بدترین نظامِ حکومت ہے، لیکن اب تک جو نظام آزمائے جاچکے ہیں ان میں سب سے بہترین نظامِ حکومت بھی یہی ہے۔ یہ الفاظ ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اسکے بعد برطانوی وزیراعظم رہے۔ تب سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جمہوریت کی اچھائیوں اور برائیوں کو جانچنے کے بعد بھی دنیا میں سب سے بہترین نظام حکومت جمہوریت ہی ہے۔ پاکستان میں سیاست میں آنے سے قبل ہر سیاسی جماعت جمہوریت کے گن گاتی ہے۔ خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتی ہے جمہوریت کی خاطر دی گئی قربانیوں پر فخر کرتی ہے۔ اقتدار پاکر ہی جمہوریت پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ پہلی بار نہیں ہورہا کہ آئین کو توڑا گیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا تعلق بلو چستان کے علاقے بھاگ کے نزدیک گاؤں چھلگری سے تھا۔وہ 1945 میں پیر بخش کے گھر پیدا ہوئے ۔ڈاکٹر صاحب مری قبیلے کے چھلگری طائفہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہونے کبھی بھی اپنے قبائلی شناخت کو نمایا ںنہیں کیا اور شروع سے اپنی شناخت بلوچ ہی رکھا۔ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں اور مزید تعلیم مستونگ سے حاصل کی۔ڈاؤمیڈیکل کالج(اب یونیورسٹی) کراچی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔1970 کے الیکشن میں ڈاکٹر صاحب ایک طالب علم کی حیثیت سے نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔