بلوچستان میں سیاسی فرسٹریشن موجود ہے جس کی وجہ سے بلوچ عوام سراپا احتجاج ہیں۔کوئی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے احتجاج میں مصروف ہے تو کوئی جبری برطرفی کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔ تو کوئی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے صدائے احتجاج بلندکررہا ہے۔دراصل سیاسی فرسٹریشن کے پیچھے بیڈگورننس ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان کے عوام کو پسماندہ رکھنے کیلئے ظلم و جبر، سماجی ناانصافیوں کی پالیسیوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے عوام زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے منتخب وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی 76 برس کی عمر میں راولپنڈی کے آرمڈ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملے۔میر ظفر اللہ جمالی کا شمار بلوچستان کے چند ان معتبر اور نمایاں سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے وفاقی حکومتوں کے ساتھ سیاست کو ترجیح دی اور صوبے میں مقبول قوم پرستی کے رجحان سے خود کو دور رکھا۔انہیں صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے اور اب تک کے آخری منتخب وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔وہ نگراں وزیراعلیٰ اور وزیراعلیٰ بلوچستان بھی رہے۔اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزیر سمیت وہ دوبار سینٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔
3نومبر کو امریکی انتخاب سے لے کر آئندہ برس 20جنوری کو نئے صدر کے حلف لینے تک یہ دن بے یقینی کے ہیں۔ جن ریاستوں میں ٹرمپ کے خیال میں بڑی انتخابی دھاندلی ہوئی تھی وہاں بھی ان کے اپنے مقرر کردہ ججوں نے ان کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ اپنی انتخابی فتح پر بضد ہیں۔ اب تو ٹرمپ کے اٹارنی جنرل ولیم بار جیسے قریبی ترین ساتھی بھی ان کے انتخابی دھاندلی کے بیانیے کو اعلانیہ بے سروپا قرار دے چکے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والے ٹرمپ کے پیغام پراب کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
کہتے ہیں کسی شہر میں ایک پاگل رہتا تھا جو روزانہ شہر کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا اور سارا دن چلاتا رہتا، لوگو اٹھ جائو اب… اپنے حق کے لیے لڑو… کب تک یونہی غلامی کرتے رہو گے… لوگ اس کی باتوں پر ہنستے اس کا مذاق اڑاتے، کہ غلامی ختم ہو گی کیسے ہو گی کون کرے گا… کس کو موت آئی ہے عذاب اپنے سر لینے کی … پاگل ناقابل برداشت ہو جاتا تو وہ اسے پتھر مارتے مگر وہ پاگل بھی ڈھیٹ تھا مار کھاتا رہتا مگر پھر شروع کر دیتا وہی رام لیلا … آخر لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے….. بس وہ پاگل روز صبح شروع ہو جاتا۔
مکران میں ڈرگ مافیا کے خلاف چلنے والی تحریک نے منشیات کی روک تھام میں سرکاری اداروں کی ناکامی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منشیات فروشوں کے خلاف نئی حکمت عملی اپنانے کا عزم کرلیا۔ انسداد منشیات تحریک کے بانی رہنماؤں نے منشیات فروشوں کے رشتہ داروں پر زور دیا اگر کسی کے خاندان کا فرد منشیات فروشی میں ملوث پایاگیا تو اس کا بھائی یا رشتہ دار اس کا سوشل بائیکاٹ کریں۔ اس سے تمام سماجی رشتوں اور ناطوں کا خاتمہ کریں۔یہ سماجی تعلقات کے خاتمے کا فیصلہ انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران نے کیا ہے۔
چانان ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن CDAکی جانب سے منعقدہ دو روزہ نوجوان امن میلہ Youth Peace Festivalکیلئے لاہور جانا ہوا۔ اس فیسٹیول میں ملک بھر سے تقریباً ڈھائی سو کے قریب نوجوانوں کی شرکت تھی جس میں ہم بلوچستان والوں کی تعداد 10کے قریب تھی جن میں کچھ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے جبکہ کچھ نوجوان بلوچستان کے مکران ڈویژن سے تھے۔ اس دوروزہ نیشنل پیس فیسٹیول میں انسانی حقوق، جمہوریت کی بالادستی، اظہار رائے کی آزادی، نواجوانوں میں ہم آہنگی کی فروغ سمیت بین المذاہب ہم آہنگی کی موضوعات پر سیاسی ، سماجی اور مذہبی شخصیات نے لب کشائی کی ۔
ایک ایسے وقت میں جہاں کرونا وائرس کی دوسری لہر شدت کے ساتھ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور دن بدن مصدقہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، ملک ایک ہنگامی صورتحال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کرونا کی پہلی لہر میں مثبت کیسز کی شرح دو سے تین فیصد تھی لیکن اب یہ شرح مجموعی طور پر آٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے جو کہ ایک الارمنگ صورتحال ہے لیکن افسوس کی بات ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں اس مہلک وبا پر اپنی سیاست چمکا رہی ہیں۔ وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف اپوزیشن کے جلسوں کو کرونا پھیلنے کی وجہ قرار دینے میں لگی ہوئی ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی دوسری لہر کے حوالے سے صورت حال بہت پریشان کن اور گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافے اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات نے ایک بار پھر حکومتی اور عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔اس بار کورونا وائرس پر سیاست بھی خوب کی گئی جس کا خمیازہ شاید ہمیں بھگتنا پڑے۔سائنسی ماہرین کئی بار خبردار کرتے رہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر شدید ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود پی ڈی ایم کے جلسے جلوس ہوتے رہے۔
یہ دو ہزار چھ کی بات ہوگی جب میں پہلی بار گوادرائیر پورٹ پر اترا تھا۔ گوادرکے بارے میں والدہ نے کہا تھا ہماری نانی اور انکے آباؤ اجداد کا تعلق گوادر یا اسکے قرب و جوار غالباً کلانچ کے علاقے سے تھا۔ میری والدہ کا ننھیال کا تعلق گوادر سے تھا جہاز سے اترتے ہی فرش پر بیٹھ گیا اس وی آئی پی وفد میں میرے ساتھ سینیئر صحافیوں کی ایک پوری ٹیم تھی قیصر محمود صاحب مرحوم اور ضرار خان کو لگا میری طبیعت خراب ہے فوری میرے قریب آئے اور پوچھا کیا ہوا سب ٹھیک ہے میں نے مسکرا کر کہا اس سرزمین سے میری نسبت جڑی ہے، اسکا پیار سمیٹ رہا ہوں۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے کابل کے دورے کے بارے میں سب سے بڑاسوال لوگ یہ کررہے ہیں کہ کیا عمران خان کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان موجود عدم اعتماد کے فقدان کا خاتمہ ہوسکے گا؟ کیا دونوں ملکوں کے مابین سلامتی انٹیلی جنس کے معلومات کا تبادلہ، ترقی میں موجود رکاوٹ، اور تناؤ کا خاتمہ ہو گا؟ اس بارے میں خود افغانستان کے اندر سے دورے کے موضوع پریہ اطلاع ہے کہ کابل اور اسلام آباد نے افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات میں بہتری لانے کے لیے انٹلی جنس شیئرنگ کرنے پر اتفاق کیا ہے اوراس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دینا شروع کردی ہیں افغان حکومت اور پاکستان دونوں فریق اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کریں گے۔