کسی بھی مہذب معاشرے کی ترقی کا دارومدار کرپشن سے پاک نظام پر ہے اس کے بغیر ترقی اور تعمیر کے بنیادی اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔ ملک میں معاشی نظام کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جس میں کرپشن نہ کی گئی ہو یہاں تک کہ کرپشن کی وجہ سے منافع بخش قومی ادارے خسارے میں چلے گئے اور قومی خزانہ پر بوجھ بن گئے ۔جو ادارے پہلے ملک کی معیشت میںاہم کردار ادا کرتے تھے ،دیوالیہ ہوچکے ہیں کہ اب ان کی نجکاری کی نوبت آئی ہے ۔بہرحال دیمک کی طرح جس طرح ملک کو کرپشن کے ذریعے کمزور کیا گیا۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن کی مسلسل فراہمی نہ ہونے پر کورونا کے 7 مریض جان کی بازی ہارگئے۔اسپتال انتظامیہ کے مطابق مریضوں کو آکسیجن کی سپلائی بروقت نہ ملنے کا واقعہ اتوار کی شب پیش آیا، آکسیجن کی مسلسل عدم فراہمی سے مریض دم توڑ گئے۔اسپتال حکام نے بتایا کہ آکسیجن سلنڈر بروقت نہ پہنچنے سے دیگر وارڈز کے مریض بھی متاثر ہوئے۔خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسپتال کو راولپنڈی سے آکسیجن سلنڈر فراہم کیے جاتے ہیں لیکن ناگزیر وجوہ کی بناء پر راولپنڈی سے آکسیجن کے سلنڈر بروقت نہ پہنچائے جا سکے۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے13 دسمبرکے جلسے سے قبل عوامی رابطہ مہم، ریلیوں اور جلسوں کا شیڈول جاری کردیاگیا ہے۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں پارٹی سیکرٹریٹ میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم عمران خان کا چیلنج قبول کرتے ہیں، مینار پاکستان پر ان سے بڑا جلسہ کرکے دکھائیں گے۔ جلسے کوکامیاب بنانے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کردی ہے، مریم نواز شہریوں کو متحرک کرنے خود شہرکے دورے کریں گی اور مختلف جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کریں گی، اس کے علاوہ وہ جاتی عمرہ سے نکلنے والی موٹر سائیکل ریلی کی قیادت بھی کریں گی۔
عالمی ادارہ صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی وباء قرار دیے جانے والے کووڈ 19 سے بچاؤ کی ویکسین کے حصول کی دوڑ میں غربا ء روندے جا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا کہ امیر ممالک جب ویکسین کے حصول کی دوڑ شروع کریں گے تو اس میں غرباء کے روندے جانے کا خدشہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب امیر ممالک ویکسین متعارف کرانے جارہے ہیں تو ایسے میں غرباء کو نظرانداز کیے جانے کا بھی خطرہ موجود ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی تین سالہ دور حکومت کا جائزہ لیاجائے تو اس میں دعوے اور عمل میں فرق واضح نظرآتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں تنقیدی پہلوؤں کو حکومت واپوزیشن حلقے ہضم نہیں کرتے دونوں اطراف سے اپنے بہترین کارناموں کے گُن گانے کے علاوہ آگے کچھ دیکھنا اور سننا انہیں گوارانہیں ۔حکومت کا کام گورننس کو بہتر کرنا ہوتاہے جس میں تمام تر انتظامی معاملات کے حوالے سے بہترین کارکردگی شامل ہے اور اس کا براہ راست مفاد عوام سے جڑا ہو اورانہیں وہ تمام تر سہولیات میسر آسکیں جنہیں فراہم کرنا ایک ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں انتہائی اہم پیشرفت ہوئی ہے۔غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان حکومت اور طالبان بلآخر 19 سالہ طویل جنگ کے بعد اب پہلی مرتبہ تحریری معاہدے کی طرف آگئے جس کی تصدیق افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں نے کی اور کہا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے ابتدائی معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔افغان حکومت کے مذاکرات کار نادر نادیری کاکہناہے کہ مذاکرات کے ابتدائی اعلامیہ سمیت طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب جلد ایجنڈے پر مذاکرات کا آغاز ہوگا۔
حکومت اپنے کارنامہ گنوانے کے حوالے سے اول روز سے دعوے کرتی آرہی ہے مگر زمینی حقائق سب کے سامنے عیاں ہیں کہ ان دوسالوں کے دوران شاید ہی کوئی ایک وعدہ حکومت نے پور ی کی ہو۔ حکومت کا سارا زور صرف اپوزیشن کوہدف تنقید بنانے پر ہے ،موجودہ ملکی معاشی ابترصورتحال سے لیکر کورونا وائرس تک کا ملبہ اپوزیشن پر ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملتان جلسہ کے دوران حکومت نے جس طرح کی حکمت عملی اپنائی ،اس سے اپوزیشن خبروں کی زینت بنی رہی اور تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف جلسہ ہوا بلکہ اپوزیشن کی جانب سے اب تک شادیانے بجائے جارہے ہیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے مطابق ملک بھر میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 6 فیصد ہوگئی ہے۔این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق میرپور میں کورونا کے سب سے زیادہ 20.62 فیصد مثبت کیسز سامنے آئے، پشاور میں مثبت کیسز کی شرح 19.58 فیصد تک جا پہنچی، حیدر آباد میں کورونا کے 19.03 فیصد مثبت کیسز رپورٹ ہوئے۔این سی او سی کے مطابق مجموعی طور پرآزادکشمیر میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 14.5 فیصد ہے،پنجاب میں مثبت کیسز کی شرح 3.05 اورسندھ میں 14.01 فیصد ہے۔
بلوچستان میں گیس کا بحران بدستور جاری ہے سرد موسم کے دوران بیشتر علاقوں میں گیس پریشر میں کمی اور غائب ہونے کے حوالے سے شکایات سامنے آتی ہیں لوگ شدیدسردی کے دوران گیس نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں اور عوام کا بس ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ انہیں گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ سوئی گیس حکام کی جانب سے آئے روز طفل تسلیاں دی جاتی ہیں اور مختلف حیلے بہانے کا سہارا لیتے ہوئے گیس فراہم نہیں کی جاتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف اوجی ڈی سی ایل بلوچستان کے مختلف علاقوں سے گیس دریافت کرنے کی خوشخبری سناتی ہے۔
بلوچستان میں ایک بڑامسئلہ غیرمعیاری غذائی اجناس کی فروخت کا بھی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان غذائی اجناس بنانے کی فیکٹریاں کام کررہی ہیں جن کی سرپرستی بڑے مافیاز کرتے آرہے ہیں جو مختلف مقامات پر فیکٹریاں قائم کرکے یہ گھناؤنا کام کررہے ہیں مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران یہ دیکھنے کومل رہا ہے کہ کوئٹہ شہر میں بلوچستان فوڈ اتھارٹی فعال ہوکر کام کررہی ہے اور اس دوران ہوٹلزاور ریسٹورنٹس میں غیر معیاری غذائی اجناس کی فروخت، صفائی کی ابتر صورتحال کے حوالے سے کارروائی کررہی ہے۔