پاکستان میں تاریخی مسئلہ آئینی اداروں کا اپنے حدود میں رہ کر کام کرنے کا ہے اور اس کے لیے ایک طویل جدوجہد بھی چلتی آرہی ہے ۔جمہوری اور ترقی پسند لیڈران جو اب اس دنیا میں نہیں رہے انہوں نے پارلیمان کی بالادستی کے لیے تمام ترسختیاں جھیلیں اور مطالبہ صرف یہی رہا کہ ملک کو آئین کے مطابق چلایاجائے ،تمام اکائیوں کو ان کے حقوق جوآئین میں موجود ہیں دیئے جائیں مگر بدقسمتی سے آئین کو پامال کرکے غیر جمہوری حکومتیں بنتی گئیں اور سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے سیاسی جماعتیں بناکر عوامی جماعتوں کو دیوار سے لگایاگیا ،اس سے ملک کو ناتلافی نقصان پہنچا ۔
موجودہ حکومت نے ایک بار پھر یہ نوید سنادی کہ جلد آئی ایم ایف سے جان چھڑائی جائے گی ملکی معیشت کو بہتر کیاجائے گا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی معیشت قرضوں پر چل رہی ہے کبھی اس میں کمی آئی تو کبھی تیزی مگر قرضوں کے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں چلایاگیا، کسی نہ کسی موڑ پر آکر دوبارہ آئی ایم ایف اوردوست ممالک سے قرضے لیے گئے۔
وفاق اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ملک کے دواہم اداروں کے درمیان جب گھمسان کی جنگ شروع ہوجائے تو یقینا اس کے اثرات نظام پر ضرور پڑینگے اور مستقبل میں اس کے نتائج بھی برآمد ہونگے۔ بہرحال قانونی اور آئینی حوالے سے دونوں ادارے ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔
بلوچستان ملک کا انتہائی پسماندہ خطہ ہے، رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا اورآبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہونے کے باوجود پھیلی ہوئی آبادی اس ترقی یافتہ دور میں زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ بلوچستان کے انفرا سٹرکچر کی بہتری ،لوگوں کو وسائل کی فراہمی ،تعلیم یافتہ با صلاحیت نوجوانوں کو روزگارکی فراہمی جیسے اہم مسائل آج بھی حل طلب ہیں حکومتوں کی جانب سے ان مسائل کو محسوس کرنے اور ماننے کے باوجود ان کے حل پر وہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے جن کی ضرورت ہے۔
ملک میں موجودہ معاشی بحران اور مہنگائی سے عوام کو بہت ساری چیلنجز کاسامنا ہے ۔ عام لوگوں کے لیے ماہ صیام اور عید کی خریداری بھی مشکل ہوکر رہ گئی ہے ،بڑی مشکل سے لوگ اپنی ضروریات کو پوراکررہے ہیں۔
ملک کا سب سے بڑا اور کم آبادی والا صوبہ بلوچستان معاشی حب کہلاتا ہے جومعدنی وسائل ، زراعت، سمندر،سرحد ی محل وقوع کے لحاظ سے بہت ہی اہم خطہ ہے۔ سات دہائی سے زائد عرصہ بیت گیا مگر بلوچستان میں معاشی حوالے سے اس طرح توجہ نہیں دی گئی تو جودینی چاہئے تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی وسابق وزیراعظم عمران خان نے اب تک اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ جو گنتی میں بھی نہیں آرہے ۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تب انہوں نے نہ صرف تاریخ کومسخ کیا بلکہ خود کو دنیا اور مسلم ممالک کا اہم لیڈر بتاتے رہے اور جب بھی انہوں نے عوامی اجتماعات، پریس کانفرنسز کے دوران بات کی تو لوگوں کو میری قوم کے سوا دیگرالفاظ کاچناؤ نہیں کیا اور اسلامی حوالہ جات بہت زیادہ دیتے رہے اور اب بھی دے رہے ہیں ۔
ملک میں سیاسی اور آئینی جنگ نے اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ایک طرف پارلیمنٹ تو دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کرانے کی کے احکامات کے بعد پارلیمنٹ ڈٹ گئی ہے اور واضح طور پر بتادیا ہے کہ الیکشن نہیں کرائے جاسکتے جس میں اقلیتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی فنڈزسمیت دیگر معاملات پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کم وسائل میں انتخابات نہیں کرائے جاسکتے جبکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں مگر اب یہ جنگ پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان چل رہی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے اندر بھی سینئر ججز کے درمیان اختلاف رائے فیصلوں کے حوالے سے موجود ہے۔
پاکستانی معیشت کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف سمیت دوست ممالک سے مدد لی جاتی رہی ہے ،دہائیاں بیت گئیں مگر ملک کو معاشی حوالے سے خود کفیل کرنے سے متعلق کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ملک میں شفاف ٹیکس کا نظام موجود نہیں، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری پر توجہ نہیں دی گئی، عالمی مارکیٹ تک پاکستانی مصنوعات کی رسائی بھی کمزور رہی۔ ایسے ہی بہت سے مسائل کی وجہ سے آج ملکی معیشت اس موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ تمام تر زور قرض لینے پر لگاہوا ہے۔
ملک میں سیاسی کشیدگی برقرار ہے تو دوسری جانب اداروں پر بھی شدید تنقید کی جارہی ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل عسکری قیادت کو ہدف بنایا گیا ہے جبکہ موجودہ حکومت نے پنجاب انتخابات فیصلے کے بعد عدلیہ کو نشانے پر لے لیا ہے ۔اداروں کے درمیان ٹکراؤ نے ایک گھمبیر صورتحال پیدا کردی ہے الیکشن کمیشن پر بہت زیادہ تنقید پی ٹی آئی کی جانب سے کیاجارہا ہے ۔ اب الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کردیاہے جس میں عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف سیاسی جماعتوں کوبیان بازی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔