|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2024

بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی تباہی کے باعث لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن کا مستقبل چند مافیاز کی وجہ سے تباہ ہورہا ہے۔ بلوچستان میں بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیم کیلئے مختص کیا جاتا ہے مگر یہ رقم تعلیمی اداروں اور اس کی بہتری پر خرچ ہی نہیں ہورہی ۔یقینا ایک ایسا گروہ موجود ہے جو مبینہ طور پر تعلیم کیلئے مختص رقم کی خود برد میں ملوث ہے۔

تعلیمی اداروں میں سہولیات تو کجا سکولوں کی عمارتیں کھنڈرات بنی ہوئی ہیں ان کی مرمت و تعمیر کیلئے رقم اگر دی جاتی ہے تو اسے بھی ہڑپ کرلیا جاتا ہے جبکہ اندرون بلوچستان کے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، چند ایسے اساتذہ بھی ہیں جو دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں مگر بیشتر اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہ وصول کررہے ہیں اورایک مخصوص رقم ہر ماہ مافیا کو دے کر اپنی حاضری لگواکر کام چلاتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب سیاسی بھرتیوں کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا جنہیں چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملازمت کے ذریعے نوازا جاتا ہے جو اہل بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ تعلیم جیسا اہم شعبہ مہذب معاشرے کی تشکیل اورترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے ،جہاں تعلیم زوال پذیر ہو اور اس کے ساتھ کھلواڑہوا تو وہ معاشرہ تباہی کی طرف چلا جاتا ہے ،نوجوان منفی سرگرمیوں میں پڑجاتے ہیں ۔

ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے تعلیم جیسے مقدس پیشہ سے کھلواڑ کرنے والوں کو کڑی سزا دینی چاہئے۔ بہرحال گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے 2 ہزار غیر حاضر اساتذہ کی برطرفی کا حکم دے دیا ۔سرفرراز بگٹی نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ایک ماہ میں غیر حاضر اساتذہ کو برطرف کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کردی اور کہا کہ محکمہ تعلیم میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی، میرٹ پر تعلیمی افسران لگائیں۔

سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ٹیچر غیر حاضر پایا گیا تو سیکریٹری تعلیم کے خلاف کارروائی ہوگی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں فی بچے پر ماہانہ 5 ہزار 625 روپے خرچ کیا جا رہا ہے، اتنے اخراجات میں بچہ اعلیٰ نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ اپنے زیر صدارت محکمہ تعلیم کے اجلاس میں کیا۔ یہ ایک انتہائی احسن اقدام وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اٹھایا ہے جو علم دوستی کا ثبوت ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی تعلیمی اداروں کے اندر بہتری اور اصلاحات لانے کیلئے باقاعدہ ایک ٹیم اپنی سربراہی میں تشکیل دیں اور تعلیمی اداروں کی کارکردگی کی ہر تین یا چھ ماہ کے دوران رپورٹ طلب کرے تاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے سامنے مکمل صورتحال واضح ہو جائے۔

یہ ہمارے بچوں اور صوبے کے مستقبل کا سوال ہے اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہئے ۔امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی تعلیمی اداروں کے لیے مختص رقم کوانہی اداروں پر خرچ کرنے کیلئے سخت پالیسیاں نافذ کریں گے تاکہ ہمارے لاکھوں بچے تعلیمی اداروں سے جڑ کر اپنا اور صوبے کا مستقبل روشن کرسکیں ۔تعلیم کی شمع سے ہی ترقی کا سورج طلوع ہوگا۔