بلوچستان کی خونی شاہراہیں، پلاننگ اور عدم دلچسپی سب سے بڑامسئلہ

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کی شاہراہوں پر خوفناک حادثے عرصہ دراز سے ہوتے آرہے ہیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں ایک مسئلہ شاہراہوںکا دورویہ نہ ہونا بھی ہے جس پر سیاسی جماعتوں سے لے کر ہر مکتبہ فکر نے آواز بلند کی کہ بلوچستان کے شاہراہوں کو بہتر کرنے کے ساتھ دورویہ کیاجائے تاکہ حادثات رونما نہ ہوں۔ حکومتیں آتی رہیں فنڈز ملتے رہے مگر خرچ کہاں ہوئے اس سوال کا جواب آج تک نہیں ملا۔



حکومت کا بجلی بنانے اور منصوبوں کی تکمیل کا فیصلہ،ایک اچھی خبر

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں بجلی کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے ملک کے بیشتر علاقوں میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس سے گھریلو اور کمرشل صارفین بری طرح متاثر ہورہے ہیں جس کی بڑی وجہ اس وقت بجلی کی پیداواری صلاحیت کا فقدان ہے جو منصوبے بجلی کے حوالے سے چلنے تھے وہ تعطل کا شکار ہیں اور جو چل رہے ہیں وہاں ایندھن کے مسائل کا سامنا ہے،حکومت کے لیے اب یہ درد سر بن چکا ہے کہ کس طرح سے توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پائے۔موجودہ حکومت کے مطابق ان کے دور میں بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اہم منصوبے بنائے گئے مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے منصوبوں کو روک دیا اور یہ جواز پیش کیا کہ ہمارے پاس بہت بجلی پہلے سے موجود ہے۔متعلقہ محکموں کے درمیان اب کس کی کیا بات چیت ہوئی اور کس نے کیا مؤقف پیش کیا، بہرحال اب مسئلہ موجودہ بحران سے نکلنے کا ہے جس کا وعدہ موجودہ حکومت بار با ر کررہی ہے۔



مکران یونیورسٹی وائس چانسلرکی تعیناتی کیونکر ضروری ہے ؟

| وقتِ اشاعت :  


مکران یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعیناتی بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہی ہے اس وقت بیشتر قوم پرست ودیگر سیاسی جماعتیں وی سی کی تعیناتی کے متعلق سخت ترین بیانات دے رہے ہیں جبکہ بعض طلبہ تنظیموں سمیت دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی وی سی کی تعیناتی واپس لینے کامطالبہ کررہی ہیں۔



آئی ایم ایف اور ہماری معیشت، حکومتی نمائندگان بھی بولنے لگے

| وقتِ اشاعت :  


ستر سال سے زائدکا عرصہ گزرگیا مگر ملک میں معاشی بہتری نہیں آسکی اور نہ ہی سیاسی حوالے سے استحکام دیکھنے کو ملا ہے ہر دور میں سیاسی حالات کشیدہ رہے تو ساتھ ہی معیشت اس کے ساتھ لڑکڑاتی رہی ،اندرون خانہ سیاسی جنگ کی وجہ سے ملک میں نہ معاشی استحکام آیا اور نہ ہی سیاسی حوالے سے صورتحال بہتر ہوئی جس کے واضح اثرات ملکی حالات سے دکھائی دے رہے ہیں ۔یہ بات تو بالکل صاف ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف ہی ہماری معیشت کو کنٹرول کرکے چلارہی ہے جن کے احکامات کے ذریعے ٹیکسز سمیت دیگر فیصلے کئے جارہے ہیں اب ن لیگ کی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کررہی ہے مگر آئی ایم ایف نے جو رویہ اختیار کیا ہے۔



ملک میں توانائی بحران، حکومت کیلئے چیلنجز

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں اس وقت بحرانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت جو درپیش چیلنج ہے وہ توانائی کا بحران ہے اور اس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہے صنعتکار، زمیندار عوام ہر طبقہ اس بحران کی وجہ سے پریشانی ہے جب بجلی نہیں ہوگی صنعتیں کیسے چلیں گی؟ زمیندار کاشتکاری کیسے کریں گے؟ پانی ،گیس، شدید گرمی میں بجلی نہ ہونے سے عوام کی زندگی مکمل مفلوج ہوکر رہ گئی ہے ۔



پی ٹی آئی کے مؤقف میں تضادات،تصادم کی نئی پالیسی؟

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان میں بیرونی سازش کے ذریعے حکومت کی تبدیلی پر پہلے سے ہی کسی کو یقین نہیں تھا کیونکہ کوئی بھی ملک کسی کے اندر پراکسی یا پھر مداخلت کرتا ہے کھلے عام نہیں بلکہ خفیہ واردات کے ذریعے ہی کرتا ہے اعلانیہ طور پر اختلافات اور ایک دوسرے کی پالیسی کے متعلق خدشات کا اظہار کیاجاتا ہے اور اس حوالے سے سفیروں کے اجلاس کے دوران انہیں اطلاع دی جاتی اور بعض اوقات حکومتی سربراہان اور ان کے نمائندگان باقاعدہ میڈیا بات چیت کے دوران اور اپنے بیانات کے ذریعے اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں اس لیے عمران خان کے خط کو کسی بھی حلقے نے سنجیدہ نہیں لیا اور نہ ہی کوئی خاص ردعمل اس حوالے سے دیکھنے کو ملا جبکہ ملک کے دفاعی سربراہان نمائندگان نے بھی اس حوالے سے واضح مؤقف دیدیا ہے مگر اس کے باوجود بھی عمران خان آج تک اس پر بضد ہیں کہ ان کے خلاف سازش کی گئی مگر اپنی ہی باتوں پر ان کے تضادات واضح ہیں کہ سازش کا ان کو پیشگی علم تھا اور انہیں بتادیا گیا تھا کہ سازش ہورہی ہے بقول عمران خان کہ انہوں نے اہم ملکی شخصیات کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا۔ 



بجٹ منظور، عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ، حکومت کی مشکلات

| وقتِ اشاعت :  


ملک خداداد میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت گزری ہو جس میں حکمران یہ دعویٰ کرتے دکھائی نہ دیتے ہوں کہ ہم عوامی مفادعامہ کے تحت پالیسی بنارہے ہیں عوام دوست بجٹ کے ذریعے ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کررہے ہیں زیادہ سے زیادہ بوجھ عوام پر نہیں ڈالاجائے گا ہر ممکن کوشش ہوگی کہ غریب شہریوں کو ہر سطح پر ریلیف فراہم کی جاسکے۔



حکمرانوں کی چولیں، مثالیں ، خوش فہمیاں، عوامی ردعمل

| وقتِ اشاعت :  


عوام سمجھدار ہیں حکمرانوں کی ہر پالیسی پر لبیک کہتے ہوئے ملکی معاشی بحران پر بخوشی حصہ ڈالتے ہیں اور سارا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں تاکہ حکمرانوں کے شاہی اخراجات پر کوئی اثر نہ پڑے ،نہ ہی ان کے اور ان کے قریبی حلقوں کے صنعتوں کے مالکان پر بوجھ آسکے جوملکی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کررہے ہیں اپنی کمپنیوں کے ذریعے جو منافع مل جاتا ہے اسے قومی خزانہ میں جمع کرکے عوام کی فلاح وبہبود پرخرچ کرنے کے لیے رکھ دیتے ہیں تاکہ عوام جو مشکل حالات میں ان کا ساتھ دیتی ہے اس وقت یہ رقم ان کے لیے آسانیاں پیدا کرسکے۔



عوام تمام تر سہولیات سے محروم، بحرانات کے باوجود حکومت کیوں لی گئی؟

| وقتِ اشاعت :  


ملک بھر میں بجلی کی طلب میں اضافے کے ساتھ ہی بڑے شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ملک میں بجلی کی طلب 28 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرگئی جب کہ پیداوار 22500 میگاواٹ ہے جس کے باعث بجلی کا شارٹ فال 6500 میگاواٹ تک جاپہنچا ہے۔