مکران یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعیناتی بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہی ہے اس وقت بیشتر قوم پرست ودیگر سیاسی جماعتیں وی سی کی تعیناتی کے متعلق سخت ترین بیانات دے رہے ہیں جبکہ بعض طلبہ تنظیموں سمیت دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی وی سی کی تعیناتی واپس لینے کامطالبہ کررہی ہیں۔
ستر سال سے زائدکا عرصہ گزرگیا مگر ملک میں معاشی بہتری نہیں آسکی اور نہ ہی سیاسی حوالے سے استحکام دیکھنے کو ملا ہے ہر دور میں سیاسی حالات کشیدہ رہے تو ساتھ ہی معیشت اس کے ساتھ لڑکڑاتی رہی ،اندرون خانہ سیاسی جنگ کی وجہ سے ملک میں نہ معاشی استحکام آیا اور نہ ہی سیاسی حوالے سے صورتحال بہتر ہوئی جس کے واضح اثرات ملکی حالات سے دکھائی دے رہے ہیں ۔یہ بات تو بالکل صاف ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف ہی ہماری معیشت کو کنٹرول کرکے چلارہی ہے جن کے احکامات کے ذریعے ٹیکسز سمیت دیگر فیصلے کئے جارہے ہیں اب ن لیگ کی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کررہی ہے مگر آئی ایم ایف نے جو رویہ اختیار کیا ہے۔
ملک میں اس وقت بحرانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت جو درپیش چیلنج ہے وہ توانائی کا بحران ہے اور اس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہے صنعتکار، زمیندار عوام ہر طبقہ اس بحران کی وجہ سے پریشانی ہے جب بجلی نہیں ہوگی صنعتیں کیسے چلیں گی؟ زمیندار کاشتکاری کیسے کریں گے؟ پانی ،گیس، شدید گرمی میں بجلی نہ ہونے سے عوام کی زندگی مکمل مفلوج ہوکر رہ گئی ہے ۔
پاکستان میں بیرونی سازش کے ذریعے حکومت کی تبدیلی پر پہلے سے ہی کسی کو یقین نہیں تھا کیونکہ کوئی بھی ملک کسی کے اندر پراکسی یا پھر مداخلت کرتا ہے کھلے عام نہیں بلکہ خفیہ واردات کے ذریعے ہی کرتا ہے اعلانیہ طور پر اختلافات اور ایک دوسرے کی پالیسی کے متعلق خدشات کا اظہار کیاجاتا ہے اور اس حوالے سے سفیروں کے اجلاس کے دوران انہیں اطلاع دی جاتی اور بعض اوقات حکومتی سربراہان اور ان کے نمائندگان باقاعدہ میڈیا بات چیت کے دوران اور اپنے بیانات کے ذریعے اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں اس لیے عمران خان کے خط کو کسی بھی حلقے نے سنجیدہ نہیں لیا اور نہ ہی کوئی خاص ردعمل اس حوالے سے دیکھنے کو ملا جبکہ ملک کے دفاعی سربراہان نمائندگان نے بھی اس حوالے سے واضح مؤقف دیدیا ہے مگر اس کے باوجود بھی عمران خان آج تک اس پر بضد ہیں کہ ان کے خلاف سازش کی گئی مگر اپنی ہی باتوں پر ان کے تضادات واضح ہیں کہ سازش کا ان کو پیشگی علم تھا اور انہیں بتادیا گیا تھا کہ سازش ہورہی ہے بقول عمران خان کہ انہوں نے اہم ملکی شخصیات کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا۔
ملک خداداد میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت گزری ہو جس میں حکمران یہ دعویٰ کرتے دکھائی نہ دیتے ہوں کہ ہم عوامی مفادعامہ کے تحت پالیسی بنارہے ہیں عوام دوست بجٹ کے ذریعے ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کررہے ہیں زیادہ سے زیادہ بوجھ عوام پر نہیں ڈالاجائے گا ہر ممکن کوشش ہوگی کہ غریب شہریوں کو ہر سطح پر ریلیف فراہم کی جاسکے۔
عوام سمجھدار ہیں حکمرانوں کی ہر پالیسی پر لبیک کہتے ہوئے ملکی معاشی بحران پر بخوشی حصہ ڈالتے ہیں اور سارا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں تاکہ حکمرانوں کے شاہی اخراجات پر کوئی اثر نہ پڑے ،نہ ہی ان کے اور ان کے قریبی حلقوں کے صنعتوں کے مالکان پر بوجھ آسکے جوملکی ترقی کے لیے کلیدی کردار ادا کررہے ہیں اپنی کمپنیوں کے ذریعے جو منافع مل جاتا ہے اسے قومی خزانہ میں جمع کرکے عوام کی فلاح وبہبود پرخرچ کرنے کے لیے رکھ دیتے ہیں تاکہ عوام جو مشکل حالات میں ان کا ساتھ دیتی ہے اس وقت یہ رقم ان کے لیے آسانیاں پیدا کرسکے۔
ملک بھر میں بجلی کی طلب میں اضافے کے ساتھ ہی بڑے شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ملک میں بجلی کی طلب 28 ہزار میگاواٹ سے تجاوز کرگئی جب کہ پیداوار 22500 میگاواٹ ہے جس کے باعث بجلی کا شارٹ فال 6500 میگاواٹ تک جاپہنچا ہے۔
کوئٹہ: صوبائی وزیر خزانہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ میں پچھلے سال کی نسبت 15 فیصد کم خسارہ ہے، ہما را کل بجٹ 366.72 ارب روپے ہے جسکا 13 فیصد بجٹ امن و امان پر دے رہے ہیں،پولیس 29 ارب لیویز 13 ارب جیل خانہ جات کو 1.2 ارب روپے دے رہے ہیں،بلوچستان کو وار زون بنایا گیا ہے فغانستان کے حالات کا 80 فیصد اثر ہم پر رہا ہے،وفاق سے گزارش ہے۔
ستر سال سے زائد عرصے کے دوران کچھ بھی نہیں بدلا ،حکمرانوں کی پالیسیاں عوام کے لیے اسی طرح ہی برقرار ہیں۔ ملک گزشتہ کئی دہائیوں سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور ان تمام تربدترین حالات میں عوام نے ہی قربانی دی ہے صنعت کار سے لیکر سیاستدانوں کے مقابلے میں عوام سب سے زیادہ ٹیکس دے ر ہے ہیں مگر اس کے باوجود بھی عوام سے مزید ٹیکسوں کے ذریعے ان کاخون چوسنے کامعاملہ تھم ہی نہیں رہا ۔ سپرٹیکس جو لگائے گئے ہیں۔
ملک کو اس وقت سب سے زیادہ استحکام کی ضرورت ہے اور یہ استحکام امن سے مشروط ہے کوئی بھی ملک بغیر امن کے ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں بدامنی کی وجہ سے سرمایہ کاری پر بہت زیادہ فرق پڑا ہے جس کی وجہ سے متعدد ممالک نے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کا رسک نہیں لیا۔ اندرون خانہ حالات بہتر ہوجائیں تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑے گا اس کے لیے امن پر زور دینا انتہائی ضروری ہے .یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کے متعلق مشاورت حکومت کی جانب سے کی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے متعلق حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی وعسکری قیادت نے شرکت کی۔